ہمیں تو خواب نے آ کر جگایا ہے ۔ عنبرین صلاح الدین

فرخ منظور

لائبریرین
ہمیں تو خواب نے آ کر جگایا ہے
از عنبرین صلاح الدین

ہمیں تو خواب نے آ کر جگایا ہے!
یہاں چاروں طرف جو نیند سے بوجھل
خُمار آلوُد آنکھیں ہیں
انہیں کِس نے بُلایا ہے!

کبھی ایسا بھی ہونا ہے
ہمیں خوابوں کے رستوں سے
اُلجھتی نیند کا منظر چُرانا ہے
ہمیں تم کو بتانا ہے!
تمہیں کیا کیا بتانا ہے!

ہمارا مسئلہ یہ ہے
کہ ہم خوابوں کو دِل کے تنگ رستوں پر
صدا دینے کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں
ہماری بے بسی یہ ہے
کہ ہم رنگوں بھری آہٹ کوئی پا کر
نگاہوں کو مخالف راستوں پر موڑ دیتے ہیں

ہمارامسئلہ یہ ہے
کہ ہم ڈر سے ابھی باہر نکلنے ہی نہیں پائے
ہماری بے بسی یہ ہے
ہمارے خواب آنکھوں تک نہیں آئے

تمہاری بے رُخی نے خوف جو دِل میں بٹھایا ہے
وہی اِک خوف ہے جو آنکھ میں اپنی سمایا ہے
کریں کیا ہم!
ہمیں پھر خواب نے آ کر جگایا ہے!!
 
Top