نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    فیض پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو ۔ فیض احمد فیض

    پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو ہم کیا کرتے کس رہ چلتے ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے اُن رشتوں کے جو چھوٹ گئے اُن صدیوں کے یارانوں کے جو اِک اِک کر کے ٹوٹ گئے جس راہ چلے، جس سمت گئے یوں پاؤﺅں لہولہان ہوئے سب دیکھنے والے کہتے تھے یہ کیسی رِیت رچائی ہے یہ مہندی کیوں لگائی ہے وہ کہتے تھے، کیوں قحطِ وفا کا...
  2. فرخ منظور

    فیض طوفاں بہ دل ہے ہر کوئی دلدار دیکھنا ۔ فیض احمد فیض

    دلدار دیکھنا طوفاں بہ دل ہے ہر کوئی دلدار دیکھنا گُل ہو نہ جائے مشعلِ رخسار دیکھنا آتش بہ جاں ہے ہر کوئی سرکار دیکھنا لو دے اٹھے نہ طرہء طرار دیکھنا جذبِ مسافرانِ رہِ یار دیکھنا سر دیکھنا، نہ سنگ، نہ دیوار دیکھنا کوئے جفا میں قحطِ خریدار دیکھنا ہم آ گئے تو گرمیِ بازار دیکھنا اُس دلنواز شہر کے...
  3. فرخ منظور

    فیض اشک آباد کی شام ۔ فیض احمد فیض

    اشک آباد کی شام جب سورج نے جاتے جاتے اشک آباد کے نیلے افق سے اپنے سنہری جام میں ڈھالی سرخی اوّلِ شام اور یہ جام تمہارے سامنے رکھ کر تم سے کیا کلام کہا پرنام اٹھو اور اپنے تن کی سیج سے اٹھ کر اِک شیریں پیغام ثبت کرو اس شام کسی کے نام کنارِ جام شاید تم یہ مان گئیں اور تم نے اپنے لبِ گُل فام کیے...
  4. فرخ منظور

    شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو ۔ ونود سہگل

    شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو یہ سکوتِ ناز، یہ دل کی رگوں کا ٹُوٹنا خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو نکہتِ زلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم صبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو عشق رُسوا ہو چلا، بے کیف سا، بے زار سا آج اُس کی نرگسِ غمّاز کی باتیں...
  5. فرخ منظور

    فراق موجِ صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں ۔ فراق

    موجِ صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں ڈوبی ہوئی ہیں خون میں پھولوں کی بستیاں مستی ہو یا خُمار ہو، کر مے پرستیاں بے سود رفعتیں ہیں نہ بیکار پستیاں اے دوست کچھ تو سوچ کہ دنیا بدل گئی اب اس قدر نہ ہوش نہ اس درجہ مستیاں شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے کس طرح اِک نظر سے بدلتی ہیں ہستیاں اے کاروانِ...
  6. فرخ منظور

    میں اپنے مراسلات کی تدوین نہیں کر سکتا۔

    السلامُ علیکم میں اپنے مراسلات کی تدوین نہیں کر سکتا۔ معلوم نہیں کسی اور رکن کو بھی اس مسئلے کا سامنا ہے یا نہیں۔ اس سے پیشتر میں اپنے مراسلات میں تدوین کر سکتا تھا لیکن اب ایسا ممکن نہیں۔ پروف ریڈنگ کرتے ہوئے مجھے اس ٹُول کی اکثر ضرورت پڑتی ہے۔ براہِ مہربانی میرا یہ مسئلہ جلد از جلد حل کیا...
  7. فرخ منظور

    ناصر کاظمی بے حجابانہ انجمن میں آ ۔ ناصر کاظمی

    بے حجابانہ انجمن میں آ کم سخن محفلِ سخن میں آ اے مرے آہوئے رمیدہ کبھی دل کے اجڑے ہوئے خُتن میں آ دل کہ تیرا تھا، اب بھی تیرا ہے پھر اسی منزلِ کہن میں آ اے گلستانِ شب کے چشم و چراغ کبھی اجڑے دلوں کے بَن میں آ کبھی فرصت ملے تو پچھلے پہر شب گزیدوں کی انجمن میں آ صبحِ نورس کی آنکھ کے تارے...
  8. فرخ منظور

    داغ مانا کہ لطف عشق میں ہے، ہم مگر کہاں ۔ داغ دہلوی

    مانا کہ لطف عشق میں ہے، ہم مگر کہاں کچھ سوجھتا نہیں کہ پڑی ہے نظر کہاں واعظ مری شراب کے چسکے ہی اور ہیں توبہ، مئے طہور میں ایسا اثر کہاں بھرتا ہزار غنچہء پیکاں کو چھوڑ کر اتنا مگر یہ دامنِ زخمِ جگر کہاں اے آہ دل میں رہ کہ پردہ رہے ترا جاتی ہے دوڑ دوڑ کے تُو بے اثر کہاں الفت جتائیے تو...
  9. فرخ منظور

    پروف ریڈ اول توزکِ اردو از اسماعیل میرٹھی

    دیباچہ زبان اردو کی کم مایگی مسلؐم ہی سہی۔ تو بھی یہ عذر انتخاب کی ذمہ داریوں سے ہم کو چنداں سبکدوش نہیں کرتا۔ جو سبق طلبہ کے درس و مطالعہ کے لئے پیش کئے جائیں۔ وہ بالضرور فصاحت و بلاغت میں کامل عیار، ادب و اخلاق کی میزان میں سنجیدہ، دلاویزی و شگفتگی کے آب و نمک سے بامزہ ہونے چاہیں۔ کامیابی کا...
  10. فرخ منظور

    فراز اُس کو جُدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا ۔ احمد فراز

    اُس کو جُدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شبِ فراق اے مرگِ ناگہاں! ترا آنا بہت ہوا ہم خُلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا اب ہم ہیں اور سارے زمانے کی دشمنی اُس سے ذرا سا ربط بڑھانا بہت ہوا اب کیوں نہ زندگی پہ...
  11. فرخ منظور

    شفیق الرحمان تعویذ از شفیق الرحمان (حماقتیں)

    تعویذ تحریر: شفیق الرحمان (حماقتیں) ٹائپنگ: بشکریہ غزل جی: ایڈمن فیس بک فورم "اردو ہے جس کا نام" چار بجے شیطان چائے پینے آئے ۔ جب ھم پی کر باھر نکلے تو دفعۃ" انھیں محسوس ھوا کہ چائے ٹھنڈی تھی ،۔ چناچہ ھم ان کے ھوسٹل گئے وھاں کھولتی ھوئی چائے پی گئی ، لیکن وہ مطمئن نہ ھوئے ۔ منہ بنا کر بولے...
  12. فرخ منظور

    میر دل پر تو چوٹ تھی ہی، زخمی ہوا جگر سب ۔ میر تقی میر

    غزل دل پر تو چوٹ تھی ہی، زخمی ہوا جگر سب ہر دم بھری رہے ہے لوہو سے چشمِ تر سب حیف اس سے حال میرا کہتا نہیں ہے کوئی نالوں سے شب کے میرے رکھتے تو ہیں خبر سب بجلی سی اِک تجلی آئی تھی آسماں سے آنکھیں لگا رہے ہیں اہلِ نظر اُدھر سب اُس ماہ بن تو اپنی دکھ میں بسر ہوئی تھی کل رات آ گیا تو وہ...
  13. فرخ منظور

    میر بولا جو مُو پریشاں آ نکلے میر صاحب ۔ میر تقی میر

    غزل بولا جو مُو پریشاں آ نکلے میر صاحب آنا ہوا کہاں سے، کہیے فقیر صاحب ہر لحظہ اِک شرارت، ہر دم ہے یک شرارت اس عمر میں قیامت تم ہو شریر صاحب بندے پہ اب نوازش، کیجے تو کیجے ورنہ کیا لطف ہے جو آئے وقتِ اخیر صاحب دل کا الجھنا اپنے ایسا نہیں کہ سلجھے ہیں دامِ زلف میں ہم اُس کے اسیر صاحب...
  14. فرخ منظور

    داغ نہ آیا نامہ بر اب تک، گیا تھا کہہ کے اب آیا ۔ داغ دہلوی

    غزل نہ آیا نامہ بر اب تک، گیا تھا کہہ کے اب آیا الٰہی کیا ستم ٹوٹا، خدایا کیا غضب آیا رہا مقتل میں بھی محروم، آبِ تیغِ قاتل سے یہ ناکامی کہ میں دریا پہ جا کر تشنہ لب آیا غضب ہے جن پہ دل آئے، کہیں انجان بن کر وہ کہاں آیا، کدھر آیا، یہ کیوں آیا، یہ کب آیا؟ شروعِ عشق میں گستاخ تھے، اب ہیں...
  15. فرخ منظور

    نصیر ترابی وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی ۔ نصیر ترابی

    وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی عداوتیں تھیں ، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے والے میں...
  16. فرخ منظور

    مرے دل مرے مسافر (کتاب) از فیض احمد فیض

    دلِ من مسافرِ من مرے دل، مرے مسافر ہوا پھر سے حکم صادر کہ وطن بدر ہوں ہم تم دیں گلی گلی صدائیں کریں رُخ نگر نگر کا کہ سراغ کوئی پائیں کسی یارِ نامہ بر کا ہر اک اجنبی سے پوچھیں جو پتا تھا اپنے گھر کا سرِ کوئے ناشنایاں ہمیں دن سے رات کرنا کبھی اِس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا تمھیں کیا کہوں کہ...
  17. فرخ منظور

    میر بارہا گور دل جھکا لایا ۔ میر تقی میر

    بارہا گور دل جھکا لایا اب کے شرطِ وفا بجا لایا قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل سارے عالم میں مَیں دکھا لایا دل کہ اک قطرہ خوں نہیں ہے بیش ایک عالم کے سر بَلا لایا سب پہ جس بار نے گرانی کی اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر اور بھی خاک میں ملا لایا ابتدا ہی میں مرگئے سب...
  18. فرخ منظور

    درد مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بُت خانہ تھا ۔ میر درد

    مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بُت خانہ تھا ہم سبھی مہماں تھے یاں، اِک تُو ہی صاحب خانہ تھا وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا حیف! کہتے ہیں ہوا گلزار تاراجِ خزاں آشنا اپنا بھی واں اک سبزۂ بے گانہ تھا ہوگیا مہماں سرائے کثرتِ موہوم آہ! وہ دلِ خالی...
  19. فرخ منظور

    کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے ۔ ثاقب لکھنوی

    کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے جوانی نہ رہتی تو پھر ہم نہ رہتے نشیمن نہ جلتا نشانی تو رہتی ہمارا تھا کیا ٹھیک رہتے نہ رہتے زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمی سو گئے داستان کہتے کہتے کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے مری ناؤاس غم کے دریا میں ثاقب کنارے پہ آ ہی لگی...
  20. فرخ منظور

    میر ہم پہ رہتے ہو کیا کمر کستے ۔ میر تقی میر

    ہم پہ رہتے ہو کیا کمر کستے اچھے ہوتے نہیں جگر خستے ہنستے کھینچا نہ کیجیے تلوار ہم نہ مر جائیں ہنستے ہی ہنستے شوق لکھتے قلم جو ہاتھ آئی لکھتے کاغذ کے دستے کے دستے سیر قابل ہیں تنگ پوش اب کے کُہنیاں پھنستی چولیاں چستے رنگ لیتی ہے سب ہوا اس کا اس سے باغ و بہار ہیں رستے اِک نگہ کر کے اُن...
Top