داغ مانا کہ لطف عشق میں ہے، ہم مگر کہاں ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
مانا کہ لطف عشق میں ہے، ہم مگر کہاں
کچھ سوجھتا نہیں کہ پڑی ہے نظر کہاں

واعظ مری شراب کے چسکے ہی اور ہیں
توبہ، مئے طہور میں ایسا اثر کہاں

بھرتا ہزار غنچہء پیکاں کو چھوڑ کر
اتنا مگر یہ دامنِ زخمِ جگر کہاں

اے آہ دل میں رہ کہ پردہ رہے ترا
جاتی ہے دوڑ دوڑ کے تُو بے اثر کہاں

الفت جتائیے تو غلط، جھوٹ، نادرست
دل مانگیے تو کہتے ہیں، کیسا، کدھر، کہاں

تھم تھم کے وار کر کہ مرا درد مٹ نہ جائے
جب میں نہیں تو لذتِ زخمِ جگر کہاں

بھُولا ہوں راہ، فرطِ محبت میں دیکھیے
ہوتی ہے آج شامِ غریبی، سحر کہاں

اس زلف میں بھی اے دلِ مضطر نہ رہ سکا
خانہ خراب تیرے ٹھکانے کو گھر کہاں

آغازِ شوق میں نہیں انجام کی خبر
اس مبتدا کی دیکھیے نکلی خبر کہاں

مے خانے کے قریب تھی مسجد بھلے کو داغ
ہر ایک پوچھتا ہے کہ حضرت اِدھر کہاں

(داغ دہلوی)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اے آہ دل میں رہ کہ پردہ رہے ترا
جاتی ہے دوڑ دوڑ کے تُو بے اثر کہاں

بہت خوب۔ اور ہمیشہ کی طرح عمدہ انتخاب۔ بہت شکریہ سخنور! :)
 
Top