غزل
(حسرت موہانی)
چادر جو کہیں حُسنِ رُخِ یار کی سرکی
قابو میں طبیعت نہ رہی ذوقِ نظر کی
سوتے میں جو دیکھا تھا رُخِ یار کا عالم
آنکھوں میں یہ خنکی ہے اُسی نورِ سحر کی
ہے شو ق بھی گرویدہ ترے نقشِ قدم کا
مائل ہےعقیدت بھی ترے سجدۂ درکی
چاہا تھا کہ پھر ان کو نہ چھیڑیں گے پہ چھیڑا
خواہش کوئی پھر...
غزل
(جوش ملیح آبادی)
رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں
اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں
کب سے مچل رہی ہے اس زلفِ خم نہ خم میں
تعبیرِ خوابِ سُنبل، تفسیرِ بادوباراں
خُوبانِ شہر کیا کیا اترا کے چل رہے ہیں
آ بوستاں...
غزل
(جگر مراد آبادی)
وہ مجسّم مری نگاہ میں ہے
اک جھلک جس کی مہروماہ میں ہے
کیا کشش حُسنِ بےپناہ میں ہے
جو قدم ہے اسی کی راہ میں ہے
میکدے میں نہ خانقاہ میں ہے
میری جنّت تری نگاہ میں ہے
ہائے وہ رازِغم کہ جو اب تک
مرے دل میں تری نگاہ میں ہے
ڈگمگانے لگے ہیں پائے طلب
دل ابھی ابتدائے راہ میں ہے...
غزل
(جان نثار اختر)
اُن کی نظروں میں مجسّم دل ہوا جاتا ہوںمیں
اب تو خود ہی ناز کے قابل ہوا جاتا ہوںمیں
جذب ہوتا جارہا ہے مجھ میں جلوہء حسن کا
آپ ہی شمعِ سرِ محفل ہوا جاتا ہوںمیں
ایک آنسو میں ڈھلی جاتی ہے ساری زندگی
دامنِ جاناں ترے قابل ہوا جاتا ہوںمیں
خواب آسا زلفِ شب گوں، شبنم آسا چشمِ ناز...
غزل
(معین احسن جذبی)
ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں
اشکوں کی زباں میں کہتے ہیں، آہوں میں اشارا کرتے ہیں
کیا تجھ کو پتہ، کیا تجھ کو خبر، دن رات خیالوں میں اپنے
اے کاکلِ گیتی، ہم تجھ کو جس طرح سنوارا کرتے ہیں
اے موجِ بلا! ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک...
غزل
(حفیظ جالندھری)
وہ ہوئے پردہ نشیں انجمن آرا ہو کر
رہ گیا میں ہمہ تن چشمِ تمنّا ہوکر
حُسن نے عشق پہ حیرت کی نگاہیں ڈالیں
خود تماشا ہوئے ہم محوِ تماشا ہوکر
آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رُکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہوکر
کوئی ہو دردِ محبت کا مداوا کردے
ملک الموت ہی آجائے مسیحا ہوکر...
غزل
(رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر)
مل چکا تجھ سے صلہ ہم کو وفاداری کا
تجھ کو آیا نہ سلیقہ کبھی دل داری کا
طفل مکتب ہے ترے سامنے خود چرخ کہن
کس سے سیکھا ہے یہ انداز دل آزاری کا
عقل والا کوئی بچتا نہیں پھندے سے ترے
گو بہت عام ہے شہرہ تری عیاری کا
ہم کو خود شوقِ شہادت ہے، گواہی کیسی؟
فیصلہ...
غزل
(ضیاء الاسلام)
اُف وہ رنگیں شباب آنکھوں میں
اک بہکتا سا خواب آنکھوں میں
میکشوں میں یہ دھوم ہے کہ پیو
وہ گلابی شراب آنکھوں میں
زاہدوں کو بھی شوق اُٹھا کہ پئیں
جب سے دیکھی شراب آنکھوں میں
دل میں ہنگامہ کرگیا برپا
وہ مچلتا شباب آنکھوں میں
تار سب دل کے جھنجھنا اُٹھے
اُف وہ رنگیں رباب...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تم کو بُلا تو لوں، مگر، آبھی سکو گے تم
سچ سچ کہو، یہ بار اُٹھا بھی سکو گے تم
تم کو تخیلات میں لا تو رہا ہوں میں
بزمِ تصوّرات سجا بھی سکو گے تم
اظہارِ عاشقی تو کروں لاکھ بار میں
بارِ جنونِ شوق اُٹھا بھی سکو گے تم
جلوؤں سے چار ہونے کو تیار ہے نظر
اس کو فریبِ حسن میں لا بھی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
سر ہے قدموں پہ بے خودی تو دیکھ
اپنے بندے کی بندگی تو دیکھ
بےخبر خود سے، باخبر تجھ سے
بےخودی میں یہ آگہی تو دیکھ
جان دینے کو زندگی سمجھے
عشق والوں کی زندگی تو دیکھ
مدبھری مست انکھڑیوں والے
تیرے قرباں ادھر کبھی تو دیکھ
غم میں مسرور ہوں، الم میں خوش
کیا خوشی ہے مری خوشی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
بہت ہی حسیں ہے تمہارا تصوُّر
نظر آفریں ہے تمہارا تصوُّر
مرے دل کی زینت نگاہوں کی زینت
بھلا کب نہیں ہے، تمہارا تصوُّر
نگاہیں تصوّر کی خیرہ نہ ہوں کیوں
بڑا مہ جبیں ہے تمہارا تصوُّر
مبارک ہو یہ ربط حسن و محبت
ہماری جبیں ہے تمہارا تصوُّر
تمہارا تخیّل ہے ایمان دل کا
نگاہوں کا...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
کیا یہ بھی میں بتلا دوں ، تُو کون ہے ، میں کیا ہوں
تو جانِ تماشا ہے، میں محوِ تماشا ہوں
تو باعثِ ہستی ہے، میں حاصلِ ہستی ہوں
تو خالقِ اُلفت ہے اور میں ترا بندہ ہوں
جب تک نہ ملا تھا تو اے فتنہء دوعالم
جب درد سے غافل تھا، اب درد کی دُنیا ہوں
کچھ فرق نہیں تجھ میں اور مجھ میں...
غزل
(فاضل کاشمیری)
دونوں عالم سے نِرالی عشق کی سرکار ہے
ہوش سے جو بےخبر ہے، وہ یہاں ہُشیارہے
رو رہے ہیں خُون کے آنسو مرے زخم جگر
دل مرے پہلو میں ہے یا دیدہء خُونبار ہے
آنکھ ملناتھاکہ رُخصت ہوگئےصبروقرار
کیا اِسے دیدار کہتےہیں، یہی دیدارہے
ہجر کی راتیں مری ہوجائیں گھڑیاں وصل کی
یہ تمہیں آسان...
غزل
(فاضل کاشمیری)
میں سمجھا تھا محبت پھر محبت ہے مزا دے گی
یہ کیا معلوم تھا ظالم شبِ فُرقَت رُلا دے گی
وہ گھڑیاں گِن رہا ہے موت کی اے واے ناکامی
جو کہتا تھا محبت زندگی میری بنا دے گی
غلط ہے یہ وہ آئیں گے، نہ آئے ہیں، نہ آئیں گے
بتا اے شامِ غَم کب مجھ کو پیغامِ قضا دے گی
مجھے بَس دیکھ لو...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
حُسن کی جنّتیں ارے توبہ
عشق کی حیرتیں ارے توبہ
ٹیس اٹھتی ہے مسکراتا ہوں
درد کی لذتیں ارے توبہ
ہائے اس زندگی میں اس دل پر
روز کی آفتیں ارے توبہ
دل پرسانِ حال کوئی نہیں
اس پہ یہ حسرتیں ارے توبہ
عشق کے ساتھ بندگی بھی کروں
اس قدر فرصتیں ارے توبہ
لُٹ رہی ہیں بصورت جلوہ
حسن کی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
میں ان کی نظروں میں سمایا ہوا ہوں
فضائے محبت پہ چھایا ہوا ہوں
میں محفل میں اُن کی جو آیا ہوا ہوں
بلایا ہوا ہوں، بلایا ہوا ہوں
لبوں پہ مرے کیوں نہ ہو مسکراہٹ
نظر کا تری گدگدایا ہوا ہوں
میں روکے کسی کے بھلا رک سکوں گا
تصوّر کی رَو کا بہایا ہوا ہوں
قسم یاد کی اور قسم بھولنے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
عالمِ عشقِ حقیقی بھی جُدا ہوتا ہے
جس کو اللہ بنا لو، وہ خُدا ہوتا ہے
ہاں ترے نام پہ میرا تو تڑپنا ہے درست
پر مرے ذکر پہ ظالم تجھے کیا ہوتا ہے
درد کو کیوں نہ کہوں باعثِ تسکیں ہےیہی
درد کو درد سمجھنے سے بھی کیا ہوتا ہے
یہ تصور کا کام ہے کہ عنایت تیری!
تو ہراک گام پہ کیوں...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
دُنیا سے مجھے مطلب ؟اس کی نہیں پروا ہے
دُنیا تو مری تم ہو، تم سے مری دنیا ہے
بیکار ہے ہر حسرت ، بےسود تمنّا ہے
آغاز میں ہنسنا ہے، انجام میں رونا ہے
کیا یہ بھی بتلادوں، تو کون ہے، تو کیا ہے
ہاں دیں ہے توہی میرا ، توہی مری دنیا ہے
اللہ رے رعنائی اس جلوہء کامل کی
دل محوِ...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اک بے وفا کو پیار کیا، ہائے کیا کیا
خود دل کو بیقرار کیا، ہائے کیا کیا
معلوم تھا کہ عہدِ وفا ان کا جھوٹ ہے
اس پر بھی اعتبار کیا، ہائے کیا کیا
وہ دل کہ جس پہ قیمتِ کونین تھی نثار
نذرِ نگاہِ یار کیا، ہائے کیا کیا
خود ہم نے فاش فاش کیا رازِ عاشقی
دامن کو تار تار کیا، ہائے کیا...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
آئے تو میری روح کو تڑپا کے چل دیئے
اُلفت کی اک شراب سی برسا کے چل دیئے
ان کے حجاب میں نہ کوئی بھی کمی ہوئی
میری نگاہِ شوق کو ترسا کے چل دیئے
تقدیر اس کو کہتے ہیں قسمت ہے اس کا نام
تسکین دینے آئے تھے، تڑپا کے چل دیئے
آئے تو تھے کہ درد مٹا دیں گے قلب کا
دیکھا جو حال غیر تو...