نتائج تلاش

  1. کاشفی

    بہزاد لکھنوی میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں - بہزاد لکھنوی

    غزل (بہزاد لکھنوی) میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں سب نے دی بانگِ محبت کوئی خاموش نہیں میں تری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں تو نہیں ہے نہ سہی، کیف نہیں غم ہی سہی یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مرا آغوش نہیں رہ گیا ہوں ترے جلوؤں میں جو میں گم ہوکر ہائے...
  2. کاشفی

    بہزاد لکھنوی محبت کی دنیا میں آؤ تو جانیں - بہزاد لکھنوی

    غزل (بہزاد لکھنوی) محبت کی دنیا میں آؤ تو جانیں ذرا دل کسی سے لگاؤ تو جانیں محبت میں تم کو بھی ہنسنا مبارک ذرا اب نہ آنسو بہاؤ تو جانیں تمہاری نظر درد سے آشنا ہے نظر سے نظر کو ملاؤ تو جانیں یہ محشر ہے محشر، یہ دنیا نہیں ہے یہاں بھی کوئی حشر اُٹھاؤ تو جانیں تمہاری بھی آنکھوں میں آنسو بھرے ہیں...
  3. کاشفی

    بہزاد لکھنوی بے پردہ جو وہ روئے پُرنور نظر آیا - بہزاد لکھنوی

    غزل (بہزاد لکھنوی) بے پردہ جو وہ روئے پُرنور نظر آیا اللہ رے عکسِ رخِ دل، طور نظر آیا جب بھی مرے ساقی نے لبریز کیا ساغر میخانہ کا ہر ذرّہ مخمور نظر آیا ہرگام پہ سجدہ کرتا نہ تو کیا کرتا دل عشق کے ہاتھوں مجبور نظر آیا ساقی کی نگاہوں میں مستی تھی قیامت کی جو پی نہ سکا وہ بھی مخمور نظر آیا کچھ...
  4. کاشفی

    بہزاد لکھنوی چاند سے دو دو باتیں - بہزاد لکھنوی

    چاند سے دو دو باتیں (بہزاد لکھنوی) ارے اے چاند! اے چرخِ بریں کی زیب و زیبائی بھلا یہ تو بتا پائی کہاں سے تونے رعنائی تری رعنائیاں ملتی ہیں روئے جاناں سے نہ پوچھ اب کفر سامانی کی باتیں میرے ایماں سے تری رفتار کچھ کچھ مل رہی ہے چال سے اُن کی اسی سے سارے عالم پہ ہے گویا بیخودی چھائی فلک کے چاند،...
  5. کاشفی

    بہزاد لکھنوی بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے - بہزاد لکھنوی

    بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے (بہزاد لکھنوی) طبیعت کو افسردہ سا پارہا ہوں اِدھر جارہا ہوں، اُدھر جارہا ہوں وہ باتیں نہیں ہیں، وہ ہنسنا نہیں ہے بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے خدا جانے یہ مجھ کو کیا ہوگیا ہے یہ محسوس کرتا ہوں کچھ کھو گیا ہے مجھے ہوش تک ہائے اپنا نہیں ہے بہت دن ہوئے تم کو...
  6. کاشفی

    ملالہ یوسفزئی نے ایشیا کی بااثر شخصیت کا ایوارڈ جیت لیا

  7. کاشفی

    ساقیا خالی نہ جائے ابر یہ آیا ہُوا - حیدر طباطبائی نظم

    غزل (نواب حیدر یار جنگ بہادر علامہ علی حیدر طباطبائی نظم) ساقیا خالی نہ جائے ابر یہ آیا ہُوا ہورہے ہیں سرخ شیشے، دل ہے للچایا ہُوا داغ دل چمکا جو اس کے طالب دیدار کا جھلملاتا ہے چراغِ طور شرمایا ہُوا عاشقوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہو کیا محشر میں بھی دھوپ میں پھرنے سے ہے کچھ رنگ سونلایا ہُوا دل بھی...
  8. کاشفی

    بہزاد لکھنوی تھی پرسکون دُنیا، خاموش تھیں فضائیں - بہزاد لکھنوی

    غزل (بہزاد لکھنوی) تھی پرسکون دُنیا، خاموش تھیں فضائیں میں نے بھریں جو آہیں، چلنے لگیں ہوائیں اُلفت کا جب مزا ہے، ملنے کی ہوں دعائیں تم ہم کو یاد آؤ، ہم تم کو یاد آئیں تم خوش ہو گر اسی میں ہم پر رہیں بلائیں ہم بھی ہیں خوش اسی میں ہاں ہاں کرو جفائیں جاؤ خدا نگہباں الٹی چلیں ہوائیں تم ہم کو...
  9. کاشفی

    ہے عکس آئینہ میں، رُخِ لاجواب کا - جدید لکھنوی

    غزل (سید مہدی میرزا صاحب جدید لکھنوی ) ہے عکس آئینہ میں، رُخِ لاجواب کا پانی میں پھول تیر رہا ہے گلاب کا بگڑے ہوئے ہیں عاشقِ رخسار باغ میں گلچیں نے پھول توڑ لیا ہے گلاب کا اک بار آج صبح ہوئی، شام ہوگئی کیا تم نے بند کھول کے باندھا نقاب کا جاتے ہیں اس خیال سے خود لے کے اپنا خط ہم انتظار کر نہ...
  10. کاشفی

    جل گیا جسم زار کیا کہنا - جدید لکھنوی

    غزل (سید مہدی میرزا صاحب جدید لکھنوی ) جل گیا جسم زار کیا کہنا آتش ہجر یار کیا کہنا سُن کے میری وفا کو اہلِ وفا کہتے ہیں بار بار، کیا کہنا سیکڑوں ہورہے ہیں دیوانے تیرا فضل بہار کیا کہنا یاد دلوارہی ہے ہجر کی شب تیرگی مزار کیا کہنا چھوٹ کے دل سے کہہ رہا ہوں جدید گردشِ روزگار کیا کہنا
  11. کاشفی

    فارسی شاعری زندہ حق از قوتِ شبیری است -شمس العارفین علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ

    شاعرِ مشرق، شمس العارفین، مخدومِ ملت، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: زندہ حق از قوتِ شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است قوتِ شبیری کی برکت سے ہی آج تک حق قائم ہے اور باطل کے مقدر میں آخر حسرت و ناکامی ہی ہے۔ چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت حریت را زہر اندر کام ریخت خلافت نے جب...
  12. کاشفی

    بہزاد لکھنوی حُسن نے یا کہ عشق نے، کس نے یہ گل کھلا دیا - بہزاد لکھنوی

    غزل (بہزاد لکھنوی) حُسن نے یا کہ عشق نے، کس نے یہ گل کھلا دیا تجھ کو خدا بنا دیا، بندہ مجھے بنا دیا اب یہ کمالِ کفر ہو یا کہ کمالِ دین ہو آپ کے پائے ناز پر میں نے تو سر جھکا دیا دل کی خلش کو کیا کہوں، دل بھی عجیب چیز ہے اس کو میں کررہا ہوں یاد، جس نے مجھے بھُلا دیا یہ مرا اضطرابِ عشق یعنی یہی...
  13. کاشفی

    بہزاد لکھنوی لے لے کے تری زلف نے ایمان ہزاروں - بہزاد لکھنوی

    غزل (بہزاد لکھنوی) لے لے کے تری زلف نے ایمان ہزاروں کرڈالے زمانہ میں مسلمان ہزاروں اس غم کا برا ہو کہ زمانے میں ابھی تک پھرتے ہیں ترے غم کے پریشان ہزاروں اے جانِ بہاراں تجھے معلوم نہیں ہے تیرے لئے پُرزے ہیں گریبان ہزاروں اعجازِ محبت تو کوئی دیکھ لے آکر ہیں میرے دلِ تنگ میں ارمان ہزاروں کیا...
  14. کاشفی

    بہزاد لکھنوی دل میرا تیرا تابع فرماں ہے کیا کروں - بہزاد لکھنوی

    غزل (بہزاد لکھنوی) دل میرا تیرا تابع فرماں ہے کیا کروں اب تیرا کفر ہی مرا ایماں ہے کیا کروں باہوش ہوں مگر مرا دامن ہے چاک چاک عالم یہ دیکھ دیکھ کے حیراں ہے کیا کروں ہر طرح کا سکون ہے ہر طرح کا ہے کیف پھر بھی یہ میرا قلب پریشاں ہے کیا کروں کہتا نہیں ہوں اور زمانہ ہے باخبر چہرے سے دل کا حال...
  15. کاشفی

    انور علی - Anwar Ali

    انور علی - Anwar Ali
  16. کاشفی

    علمدار کربلا - سید ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی

    علمدار کربلا (عباس علیہ السلام) (سید ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی) کیا تعجب ہے جو سب کا مدعا عباس ہیں جو دلِ حیدر سے نکلی وہ دعا عباس ہیں مختصر الفاظ میں وہ باوفا عباس ہیں ہے وفا اک لفظ جس کا ترجمہ عباس ہیں بزم میں اُم البنین کا مدعا عباس ہیں رزم میں شیرِ خدا کا حوصلہ عباس ہیں ہیں اگر...
  17. کاشفی

    کوئی کس طرح رازِ اُلفت چھپائے - نخشب جارچوی

    غزل (نخشب جارچوی) کوئی کس طرح رازِ اُلفت چھپائے نگاہیں ملیں اور قدم ڈگمگائے وہ مجبوریوں پر مری مسکرائے یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو ائے محبت میں کچھ اتفاقات بھی تھے کہ جو میری تقدیر بننے نہ پائے ترا غم بھلا کیا چھپائے سے چھپتا بہت اشک روکے بہت مسکرائے وہ اس طرح میرے برابر سے گذرے ادائیں...
  18. کاشفی

    دل کہہ رہا ہے اُن کی نظر دیکھتے ہوئے - حیرت شملوی

    غزل (حیرت شملوی) دل کہہ رہا ہے اُن کی نظر دیکھتے ہوئے دیکھیں گے کیا اِدھر وہ اُدھر دیکھتے ہوئے اُمید تھی کسے کہ گزر جائیں گے یہ دن دل پر وُفورِ غم کا اثر دیکھتے ہوئے اپنا تو حال یہ ہے کہ اک عمر کٹ گئی دنیائے دل کو زیر و زبر دیکھتے ہوئے ہوتا ہے آپ پر بھی اثر کوئی یا نہیں یہ انقلابِ شام و سحر...
  19. کاشفی

    خودی جب ہو طبیعت میں خدا کا ڈر نہ ایماں کا - پنڈت رادھے ناتھ کول گلشن

    غزل (پنڈت رادھے ناتھ کول صاحب المتخلص بہ گلشن) خودی جب ہو طبیعت میں خدا کا ڈر نہ ایماں کا وہاں کیا کام انساں کا جہاں ہو دخل شیطاں کا جو محویت کا عالم ہے وہ دُنیا سے نرالا ہے یہاں کچھ فرق باقی ہی نہیں رہتا دل و جاں کا محبت دل میں جب ہوگی تو پیدا ربط بھی ہوگا نہ رہ جائے گا باقی فرق ہندو اور...
  20. کاشفی

    بھُلا دیں ہم اُنہیں ہم سے تو ایسا ہو نہیں سکتا - پنڈت رادھے ناتھ کول گلشن

    غزل (پنڈت رادھے ناتھ کول صاحب المتخلص بہ گلشن) بھُلا دیں ہم اُنہیں ہم سے تو ایسا ہو نہیں سکتا وہ ہم کو بھول جائیں یہ بھی اصلا ہو نہیں سکتا اگر ہم مُتحد ہوجائیں پھر کیا ہو نہیں سکتا نہ قطرے جمع ہوں باہم تو دریا ہو نہیں سکتا طلب مطلوب کی طالب کو ہونی چاہیئے دل سے بنے جس کا نہ سودائی وہ سودا ہو...
Top