کاشفی

محفلین
غزل
(نواب حیدر یار جنگ بہادر علامہ علی حیدر طباطبائی نظم)
ساقیا خالی نہ جائے ابر یہ آیا ہُوا
ہورہے ہیں سرخ شیشے، دل ہے للچایا ہُوا

داغ دل چمکا جو اس کے طالب دیدار کا
جھلملاتا ہے چراغِ طور شرمایا ہُوا

عاشقوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہو کیا محشر میں بھی
دھوپ میں پھرنے سے ہے کچھ رنگ سونلایا ہُوا

دل بھی ٹوٹا بلبلِ ناشاد کا پھولوں کے ساتھ
دامنِ گلچیں میں اک غنچہ ہے کمھلایا ہُوا

کشمکش میں آروزئے قتل نکلے کس طرح
مضطرب میں ہوں، قاتل بھی ہے گھبرایا ہُوا

آج پھر ناصح وہی چلتا ہوا فقرہ کہا
بارہا کا جو کہ ہے ارشاد فرمایا ہُوا

دے کے تسکیں اس نے اعجاز مسیحائی کیا
رہ گیا قالب میں دم ہونٹوں تلک آیا ہُوا

بام پر وہ جلوہ فرما ہے، مقابل کون ہے
چاند کچھ دب دب کے نکلا بھی تو شرمایا ہُوا

سرووسنبل دیکھتے ہی خاک میں مل جائیں گے
بال یہ بکھرے ہوئے، چلنا یہ اٹھلایا ہُوا

ابر تو آیا بھی ساقی اور برس کر کھل گیا
میری آنکھوں میں اندھیرا رہ گیا چھایا ہُوا

کل تلک منہ ڈھانک کر سونے میں دم گھٹتا تھا نظم
آج دامانِ کفن منہ پر ہے دُہرایا ہوا
 
Top