خودی جب ہو طبیعت میں خدا کا ڈر نہ ایماں کا - پنڈت رادھے ناتھ کول گلشن

کاشفی

محفلین
غزل
(پنڈت رادھے ناتھ کول صاحب المتخلص بہ گلشن)
خودی جب ہو طبیعت میں خدا کا ڈر نہ ایماں کا
وہاں کیا کام انساں کا جہاں ہو دخل شیطاں کا

جو محویت کا عالم ہے وہ دُنیا سے نرالا ہے
یہاں کچھ فرق باقی ہی نہیں رہتا دل و جاں کا

محبت دل میں جب ہوگی تو پیدا ربط بھی ہوگا
نہ رہ جائے گا باقی فرق ہندو اور مسلماں کا

وہ گُل بےکار ہیں جن میں نہ خوشبو اور لطافت ہو
مَے رنگینِ اُلفت سے نہ دل خالی ہو انساں کا

بہارِ عیش کا انجام آخر غم پہ ہوتا ہے
یہی مُرجھا کے گُل کہتا ہے بُلبُل سے گلستاں کا

اگر قسمت میں ہوتا رہبریِ خضر کام آتی
سکندر کو پتا مل جاتا بیشک آبِ حیواں کا

عناصر کے قفس میں روح کیوں اور کس طرح آئی
کھُلے گا ہم پہ کب تک دیکھیے یہ راز زنداں کا

غلط رستے دکھاتا ہے بُری راہیں چلاتا ہے
رہا کچھ اعتبار اب تو نہ دل سے بھی نگہباں کا

سُنا ہے دشمنِ دانا کو بہتر لوگ کہتے ہیں
سبب یہ ہے کہ ساتھ اچھا نہیں ہوتا ہے ناداں کا

رہے محوِ خیالِ ذاتِ باری یہ تو لازم ہے
مگر دُنیا کا بھی تو کام ہے اک فرض انساں کا

کسی نے بھی نہ کی تکمیلِ درسِ عشق اے گلشن
یہی دستور اب تک چل رہا ہے اس دبستاں کا
 
Top