غزل
(بہزاد لکھنوی)
اُن کی نادانیاں نہیں جاتیں
میری قربانیاں نہیں جاتیں
میں تو ہنستا ہوں تھام کر دل کو
جب پریشانیاں نہیں جاتیں
جب سے دیکھا ہے آئینہ وش کو
دل کی حیرانیاں نہیں جاتیں
بزمِ جاناں میں تک رہا ہوں نظر
میری نادانیاں نہیں جاتیں
پارہا ہوں ہر اک طرف اُن کو
ہائے حیرانیاں نہیں جاتیں
ہے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
یہ ہے اک نَو شباب کا عالم
جیسے کِھلتے گلاب کا عالم
حُسن زیرِ نقاب اُف توبہ
صبحدم آفتاب کا عالم
تم نے کی بھی نگاہِ لُطف تو کیا
کیا گیا اضطراب کا عالم
میرے دامانِ تر سے پوچھ نہ لو
میری چشمِ پُرآب کا عالم
سیلِ اُلفت میں ہے یہ حال مرا
جیسے بہتے حباب کا عالم
تم بھی دیکھو گے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
کیا بتاؤں کہ مُدعا کیا ہے
خود سمجھ لو کہ ماجرا کیا ہے
آج کی رات کیوں نہیں کٹتی
اے دلِ درد آشنا کیا ہے
خیر میں تو ہوں ان کا دیوانہ
ساری دنیا کو یہ ہوا کیا ہے
تجھ سے ملنے کی ہیں تمنّائیں
اور مجبُور کی دُعا کیا ہے
ان نگاہوں کو پھیرنے والے
یہ بتادے مری خطا کیا ہے
آج توبہ ہے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
مرے جہانِ محبت پہ چھائے جاتے ہیں
بھُلا رہا ہوں مگر یاد آئے جاتے ہیں
وہی ہیں عشق کے مارے، وہی ہیں دل والے
جو تیرے واسطے آنسو بہائے جاتے ہیں
جہانِ عشق میں اے سیر دیکھنے والے
طرح طرح کے تماشے دکھائے جاتے ہیں
یہی مرے لئے اک روز خون روئیں گے
یہی یہی کہ جو مجھ کو مٹائے جاتے ہیں...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
یوں تو جو چاہے یہاں صاحبِ محفل ہوجائے
بزم اُس شخص کی ہے تُو جسے حاصل ہوجائے
ناخُدا اے مری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہوجائے
اس لئے چل کے ہر اک گام پہ رُک جاتا ہوں
تا نہ بےکیف غمِ دُوریء منزل ہوجائے
تجھ کو اپنی ہی قسم یہ تو بتا دے مجھ کو
کیا یہ ممکن...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اک حُسن کی خِلقت سے ہر دل ہوا دیوانہ
محفل میں چراغ آیا، گرنے لگا پروانہ
اتنا مرا قصّہ ہے، اتنا مرا افسانہ
جب تم نہ ملے مجھ کو، میں ہوگیا دیوانہ
سمجھاؤ نہ سمجھے گا، بہلاؤ نہ بہلے گا
تڑپاؤ تو تڑپے گا، پہروں دل دیوانہ
زردی مرے چہرے کی، آنسو مری آنکھوں کے
سرکار یہ سب کچھ ہیں...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
وفاؤں کے بدلے جفا کررہے ہیں
میں کیا کر رہا ہوں، وہ کیا کررہے ہیں
ستم ڈھائے جاؤ، سلامت رہو تم
دُعا کرنے والے دعا کررہے ہیں
تری رحمتوں کا سہارا ہے ہم کو
ترے آسرے پر خطا کررہے ہیں
ہیں دنیا میں جتنے بھی مجبورِ اُلفت
تمہیں سے تمہارا گلہ کررہے ہیں
محبت خطا ہے، سمجھتے ہیں ہم بھی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
ترے عشق میں زندگانی لُٹا دی
عجب کھیل کھیلا، جوانی لُٹا دی
نہیں دل میں داغِ تمنّا بھی باقی
انہیں پر سے ان کی نشانی لُٹا دی
کچھ اس طرح ظالم نے دیکھا کہ ہم نے
نہ سوچا، نہ سمجھا، جوانی لُٹا دی
تمہارے ہی کارن، تمہاری بدولت
تمہاری قسم زندگانی لُٹا دی
اداؤں کو دیکھا، نگاہوں کو...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اُن کو بُت سمجھا تھا یا اُن کو خدا سمجھا تھا میں
ہاں بتا دے اے جبینِ شوق کیا سمجھا تھا میں
اللہ اللہ کیا عنایت کر گئی مضرابِ عشق
ورنہ سازِ زندگی کو بے صدا سمجھا تھا میں
ان سے شکوہ کیوں کروں، ان سے شکایت کیوں کروں
خود بڑی مشکل سے اپنا مدعا سمجھا تھا میں
میری حالت دیکھئے،...
غزل
(حفیظ جالندھری)
دو روز میں شباب کا عالم گزر گیا
"بدنام کرنے آیا تھا، بدنام کرگیا"
بیمارِ غم مسیح کو حیران کر گیا
اُٹھا، جُھکا، سلام کیا، گرکے مر گیا
گُزرے ہوئے زمانے کا اب تذکرہ ہی کیا
اچھا گزر گیا، بہت اچھا گزر گیا
دیکھو یہ دل لگی، کہ سرِ رہگزارِ حُسن
اک اک سے پوچھتا ہوں مرا دل کدھر گیا...
غزل
(حفیظ جالندھری)
رنگ بدلا یار کا، وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں، وہ چاندنی راتیں گئیں
پی تو لیتا ہوں مگر پینے کی وہ باتیں گئیں
وہ جوانی، وہ سیہ مستی، وہ برساتیں گئیں
اللہ اللہ کہہ کے بس اک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں، وہ دعائیں، وہ مناجاتیں گئیں
حضرتِ دل ہر نئی اُلفت سمجھ کر سوچ کر...
غزل
(حفیظ جالندھری)
آہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اُتارنے
غفلت ذرا نہ کی مرے غفلت شعار نے
اب تک اسیرِ دامِ فریبِ حیات ہوں
مجھ کو بھُلا دیا مرے پروردگار نے
او بےنصیب دن کے تصور سے خوش نہ ہو
چولا بدل لیا ہے شبِ انتظار نے
برسوں فریبِ عشق دیا اک حسین کو
اس دل نے، ہاں اسی دلِ ناکردہ کار نے
سب کیفیت...
غزل
(حفیظ جالندھری)
آنے لگا ہے اپنی حقیقت سے ڈر مجھے
کیوں دیکھتے ہیں غور سے اہلِ نظر مجھے
ہے خوابِ مرگ زندگیِ تازہ کی دلیل
یہ شام دے رہی ہے نویدِ سحر مجھے
بدلی ہوئی نگاہ کو پہچانتا ہوں میں
دینے لگے پھر آپ فریبِ نظر مجھے
لے جاؤ ساتھ ہوش کو، اے اہلِ ہوش جاؤ
ہے خوب اپنی بےخبری کی خبر مجھے
لو وہ...
سلام
(محسن نقوی شہید)
کیا خاک وہ ڈریں گے لحد کے حساب سے؟
منسوب ہیں جو خاکِ رَہ بوتراب سے
مشکل کشا ہیں پاس، فرشتو ادب کرو
مشکل میں ڈال دوں گا سوال و جواب سے
خیبر میں دیکھنا یہ ہے جبریل یا اَجل
لپٹا ہوا ہے کون علی کی رکاب سے
پہلے یہ ضد تھی خواب میں دیکھیں گے خُلد کو
اب ضد یہ ہے کہ خلد میں جاگیں...
سلام
(محسن نقوی شہید)
بصَد رکُوع و سجود و قیام کہنا ہے
حسین ابنِ علی پر سلام کہنا ہے
زباں کو چاہیے کچھ اعتمادِ خاکِ شفا
ہمیں جبیں کو معلّیٰ مقام کہنا ہے
غمِ حسین میں اک اشک کی ضرورت ہے
پھر اپنی آنکھ کو، کوثر کا جام کہنا ہے
یہ نام کیوں نہ کروں زندگی میں وردِ زباں؟
مجھے لحد میں علی کو امام کہنا...
افتخارِحسن علیہ السلام
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
اہل دنیا خاک سمجھیں گے حسن کا افتخار
خاک کے پتلے ہیں یہ، وہ رحمتِ پروردگار
مالکِ جنّت کا رتبہ اور سمجھیں اہلِ نار
فرش کے ساکن بتائیں عرش والوں کا وقار
یاد رکھو مختصر یہ ہے حسن کا اقتدار
وقت کا قیصر بھی ہے اس در کا اک خدمت گزار...
نوحہ برائے وفات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
روضہ پہ مصطفیٰ کے تھا فاطمہ کا نوحہ
بابا تمہاری بیٹی اب رہ گئی ہے تنہا
آتا نہیں ہے در پہ کوئی سلام کرنے
دشمن ہوا زمانہ بدلی ہوئی ہے دنیا
کیا جانے ہوگی حالت اب کیا تمہارے گھر کی
جب دو دنوں میں بدلا...
سلام و نوحہ
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
دختر شاہ لافتیٰ زینب
اپنی منزل کی فاطمہ زینب
کوئی سمجھے گا تجھ کو کیا زینب
تجھ پر شبیر تھے فدا زینب
یہ تھا بس تیرا حوصلہ زینب
تجھ سے زندہ ہے کربلا زینب
وہ فقط تیرا ایک بھائی تھا
جس کا ثانی نہ ہوسکا زینب
دینِ اسلام کی بنا تھے حسین
دینِ...
مرثیہ شہادت امام حسین علیہ السلام
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
مالک سلطنتِ صبرو شجاعت تھے حسین
عارفِ دبدبہء عزمِ شہادت تھے حسین
وارث عظمتِ سرکارِ رسالت تھے حسین
جانِ زہرا و علی، نازِ مشیت تھے حسین
حیف جس کا کوئی کونین میں ثانی نہ ملا
زیر شمشیرِ ستم اُس کو بھی پانی نہ ملا
یوں تو ہر...
عَلَمدارِ کربَلاَ (مسدس)
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
روح کمال احمد مختار ہے وفا
حسن و جمال حیدر کرار ہے وفا
محبوب خاص ایزد غفار ہے وفا
انسانیت کی نسل کا معیار ہے وفا
کہتا ہوں صاف میثم تمار کی طرح
ہو باوفا تو شہ کے علمدار کی طرح
عباس ہر کمال سیادت سے ہے قریب
عباس ہر فریب سیاست کا ہے...