بہزاد لکھنوی اُن کو بُت سمجھا تھا یا اُن کو خدا سمجھا تھا میں - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
اُن کو بُت سمجھا تھا یا اُن کو خدا سمجھا تھا میں
ہاں بتا دے اے جبینِ شوق کیا سمجھا تھا میں

اللہ اللہ کیا عنایت کر گئی مضرابِ عشق
ورنہ سازِ زندگی کو بے صدا سمجھا تھا میں

ان سے شکوہ کیوں کروں، ان سے شکایت کیوں کروں
خود بڑی مشکل سے اپنا مدعا سمجھا تھا میں

میری حالت دیکھئے، میرا تڑپتا دیکھئے
آپ کو اس سے غرض کیا ہے کہ کیا سمجھا تھا میں

کھُل گیا یہ راز اُن آنکھوں کے اشکِ ناز سے
کیفیاتِ حُسن کو غم سے جُدا سمجھا تھا میں

اے جبینِ شوق ہاں تجھ کو بڑی زحمت ہوئی
آج ہر ذرّے کو اُن کا نقشِ پا سمجھا تھا میں

اک نظر پر منحصر تھی زیست کی کُل کائنات
ہر نظر کو جان جانِ مدعا سمجھا تھا میں

آرہا ہے کیوں کسی کا نام ہونٹوں تک مری
اے دلِ مضطر تجھے صبر آزما سمجھا تھا میں

آپ تو ہر ہر قدم پر ہورہے ہیں جلوہ گر
آپ کو حدِّ نظر سے ماورا سمجھا تھا میں

یہ فغاں، یہ شور، یہ نالے، یہ شیون تھے فضول
کیا بتاتی تھی محبت اور کیا سمجھا تھا میں

اُس نگاہِ ناز نے بہزاد مجھ کو کھو دیا
جس نگاہِ ناز کو اپنی دوا سمجھا تھا میں
 
Top