کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
کیا بتاؤں کہ مُدعا کیا ہے
خود سمجھ لو کہ ماجرا کیا ہے

آج کی رات کیوں نہیں کٹتی
اے دلِ درد آشنا کیا ہے

خیر میں تو ہوں ان کا دیوانہ
ساری دنیا کو یہ ہوا کیا ہے

تجھ سے ملنے کی ہیں تمنّائیں
اور مجبُور کی دُعا کیا ہے

ان نگاہوں کو پھیرنے والے
یہ بتادے مری خطا کیا ہے

آج توبہ ہے کس لئے بےچین
آسماں پر یہ سُرمہ سا کیا ہے

گر نہیں کوئی شے بھی جذبِ وفا
پھر یہ مٹنے کا حوصلہ کیا ہے

ہم نے تو اس قدر ہی سمجھا ہے
دہر میں غم کے ماسوا کیا ہے

ایک بُت کی طلب ہے کیوں بہزاد
بول اے بندہء خدا کیا ہے
 
Top