کاشفی

محفلین
علمدار کربلا (عباس علیہ السلام)
(سید ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
کیا تعجب ہے جو سب کا مدعا عباس ہیں
جو دلِ حیدر سے نکلی وہ دعا عباس ہیں


مختصر الفاظ میں وہ باوفا عباس ہیں
ہے وفا اک لفظ جس کا ترجمہ عباس ہیں


بزم میں اُم البنین کا مدعا عباس ہیں
رزم میں شیرِ خدا کا حوصلہ عباس ہیں

ہیں اگر شبیر اپنے عہد کے اک مصطفیٰ
بالیقیں اس مصطفیٰ کے مرتضیٰ عباس ہیں

حق سے حیدر کو ملا شیرِ الہیٰ کا غضب
شیر جس کو کہتے ہیں شیرِ خدا عباس ہیں

حضرتِ شبیر ہیں دینِ خدا کا آسرا
حضرتِ شبیر کا اک آسرا عباس ہیں

کھا کے ٹھوکر جب کسی کو کوئی دیتا ہے صدا
ایسا لگتا ہے کہ اس کا مدعا عباس ہیں

خون کے دریا سے لگا دے پار جو کشتیِ دیں
مذہبِ اسلام کے وہ ناخدا عباس ہیں

ننھے بچوں کی تمنّا قلبِ زینب کا سکوں
یعنی ہر بے آسرا کا آسرا عباس ہیں

ہر طرف سے آتی ہے آواز یاعباس کی
دوجہاں کے آج تک مشکلکشا عباس ہیں

آتی ہے روضہ پہ دنیا ہاتھ پھیلائے ہوئے
یعنی سب محتاج ہیں، حاجب روا عباس ہیں

ایک خطبہ سے اُلٹ دے جو دیارِ ظلم کو
فاتح اعظم ہے وہ اس کے چچا عباس ہیں

سارے جھنڈے دہر کے اٹھتے رہے گرتے رہے
جس کا پرچم آج تک اونچا رہا عباس ہیں

اُمت اسلام! کر حالات پر اپنے نظر
بےوفائی سے تری شائد خفا عباس ہیں

تذکرہ عباس کا ہو کیوں نہ معراج کلیم
خانہء حیدر کا قرآن وفا عباس ہیں
 
Top