بھُلا دیں ہم اُنہیں ہم سے تو ایسا ہو نہیں سکتا - پنڈت رادھے ناتھ کول گلشن

کاشفی

محفلین
غزل
(پنڈت رادھے ناتھ کول صاحب المتخلص بہ گلشن)
بھُلا دیں ہم اُنہیں ہم سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
وہ ہم کو بھول جائیں یہ بھی اصلا ہو نہیں سکتا

اگر ہم مُتحد ہوجائیں پھر کیا ہو نہیں سکتا
نہ قطرے جمع ہوں باہم تو دریا ہو نہیں سکتا

طلب مطلوب کی طالب کو ہونی چاہیئے دل سے
بنے جس کا نہ سودائی وہ سودا ہو نہیں سکتا

بھلا مل بیٹھنا ہے لیکن الفت اور ہی کچھ ہے
نہ مل جائیں اگر دل ربط پیدا ہو نہیں سکتا

ترقی کے مدارج منحصر ہیں رازدانی پر
جو دانائے زماں ہے اُس کو دھوکا ہو نہیں سکتا

ہنسی میں، کھیل میں، اچھے برے کاموں میں دانا کو
گذرنا حد سے نازیبا ہے، زیبا ہو نہیں سکتا

ہے ماہیّت ہر اک شے کی خود اپنی فکر سے پیدا
بجا جس کو کہے دل اپنا بیجا ہو نہیں سکتا

جِلا آئینے کی کرتی ہے روشن عکس جاناں کو
صفائی دل پہ غالب ہو تو پردا ہو نہیں سکتا

محبت میں نہ کام آئیں گی ظاہر داریاں گلشن
ملیں جب تک نہ دل، کوئی کسی کا ہو نہیں سکتا
 

ظفری

لائبریرین
بھُلا دیں ہم اُنہیں ہم سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
وہ ہم کو بھول جائیں یہ بھی اصلا ہو نہیں سکتا

بہت خوب ۔ کیا بات ہے ۔ اس بات پر ایک میٹنگ کیوں نہ رکھ لیں ۔ ;)
 
Top