کاشفی

محفلین
چاند سے دو دو باتیں
(بہزاد لکھنوی)
ارے اے چاند! اے چرخِ بریں کی زیب و زیبائی
بھلا یہ تو بتا پائی کہاں سے تونے رعنائی

تری رعنائیاں ملتی ہیں روئے جاناں سے
نہ پوچھ اب کفر سامانی کی باتیں میرے ایماں سے

تری رفتار کچھ کچھ مل رہی ہے چال سے اُن کی
اسی سے سارے عالم پہ ہے گویا بیخودی چھائی

فلک کے چاند، میں نے بھی زمیں کا چاند دیکھا ہے
اور اس کے بعد سے سارے جہاں کو ماند دیکھا ہے

خدا شاہد ہے جس دن چودھویں کی رات ہوتی تھی
تو میری زندگانی میں نئی اک بات ہوتی تھی

کہ وہ مستِ شباب آتا تھا سرکائے نقاب اپنی
زمانہ بھر پہ پھیلاتا تھا تنویرِ شباب اپنی

میں اس کو دیکھ کر سارا زمانہ بھول جاتا تھا
زمانہ کیسا، خود اپنا فسانہ بھول جاتا تھا

نگاہیں جذب ہوجاتی تھیں میری روئے جاناں میں
میں اک بالیدگی محسوس کرتا تھا رگِ جاں میں

مرا دردیست اندر دل کہ گر گویم زباں سوزد
وگردم درکشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد
 
Top