بہزاد لکھنوی آئے تو میری روح کو تڑپا کے چل دیئے - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
آئے تو میری روح کو تڑپا کے چل دیئے
اُلفت کی اک شراب سی برسا کے چل دیئے

ان کے حجاب میں نہ کوئی بھی کمی ہوئی
میری نگاہِ شوق کو ترسا کے چل دیئے

تقدیر اس کو کہتے ہیں قسمت ہے اس کا نام
تسکین دینے آئے تھے، تڑپا کے چل دیئے

آئے تو تھے کہ درد مٹا دیں گے قلب کا
دیکھا جو حال غیر تو گھبرا کے چل دیئے

آنکھوں میں کچھ حسین سے آنسو بھرے ہوئے
چپکے سے آئے اور مجھے سمجھا کے چل دیئے

ان سے کسی اُمید کا رکھنا فضول ہے
میرے دلِ غریب کو ٹھکرا کے چل دیئے

اوروں کو بھر کے دیدیئے جامِ شرابِ ناب
اور مجھ کو رازِ میکدہ سمجھا کے چل دیئے

جب داستانِ عشق مری ختم ہوگئی
بل کھا کے چل دیئے، کبھی شرما کے چل دیئے

میں نے جو یہ کہا کہ اب آنا تو ہوچکا
بہزاد میرے سر کی قسم کھا کے چل دیئے
 

الشفاء

لائبریرین
اوروں کو بھر کے دیدیئے جامِ شرابِ ناب
اور مجھ کو رازِ میکدہ سمجھا کے چل دیئے

خوبصورت غزل کا پر لطف شعر۔۔۔ اور اس مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہم لگائے دیتے ہیں کہ

پایا جنہوں نے مے کدے کا راز وہ فقیر
جامِ شرابِ ناب کو ٹھکرا کے چل دیئے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اوروں کو بھر کے دیدیئے جامِ شرابِ ناب
اور مجھ کو رازِ میکدہ سمجھا کے چل دیئے

کاشفی بھائی یہ تو زیادہ منافع کا سودا نہیں ہوگیا۔۔۔ :biggrin:;)
 
Top