کاشفی

محفلین
غزل
(رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر)
مل چکا تجھ سے صلہ ہم کو وفاداری کا
تجھ کو آیا نہ سلیقہ کبھی دل داری کا

طفل مکتب ہے ترے سامنے خود چرخ کہن
کس سے سیکھا ہے یہ انداز دل آزاری کا


عقل والا کوئی بچتا نہیں پھندے سے ترے
گو بہت عام ہے شہرہ تری عیاری کا

ہم کو خود شوقِ شہادت ہے، گواہی کیسی؟
فیصلہ کر بھی چکو مجرمِ اقراری کا

میری شہرت بھی اگر ہوگی تو کیا؟ قتل بھی کر
نام ہوجائے گا تیری بھی ستم گاری کا

کیا قباحت ہے مری قتل سے شہرت ہی سہی
نام ہوگا نہ بھلا تیرے ستم گاری کا

قاتل اب دیر ہے کیا؟ جام شہادت دے چک
ہوگیا وقت کبھی کا، مری افطاری کا

تو ہو آمادہ جو، اے دل تو ہے پھر دار بھی ہیچ!
آزما دیکھ، یہ سب کھیل ہے تیاری کا!

سب ہیں فانی، غم دنیا نہ رہا، ہم نہ رہے
رہ گیا نام ِغم عشق کی غم خواری کا


تو تو ہم سب کو یہیں چھوڑ چلا اے جوہر
شور سنتے تھے بہت تیری وفاداری کا
 
Top