بہزاد لکھنوی عالمِ عشقِ حقیقی بھی جُدا ہوتا ہے - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
عالمِ عشقِ حقیقی بھی جُدا ہوتا ہے
جس کو اللہ بنا لو، وہ خُدا ہوتا ہے


ہاں ترے نام پہ میرا تو تڑپنا ہے درست
پر مرے ذکر پہ ظالم تجھے کیا ہوتا ہے

درد کو کیوں نہ کہوں باعثِ تسکیں ہےیہی
درد کو درد سمجھنے سے بھی کیا ہوتا ہے

یہ تصور کا کام ہے کہ عنایت تیری!
تو ہراک گام پہ کیوں جلوہ نما ہوتا ہے

میں سمجھتا ہوں کہ دُنیا ہے مرے زیرِ نگیں
جب مرا سر ترے قدموں پہ جھکا ہوتا ہے


میں یہ کہتا ہوں کہ مرنے کی تمنّا نہ کروں
دل یہ کہتا ہے کہ مرجانے سے کیا ہوتا ہے

مجھ کو شکوہ نہیں کچھ کش مکشِ ہستی سے
کوئی ہو بات گلے کی تو گِلا ہوتا ہے

جن کی تقدیر ہے اچھی انہیں وہ ملتے ہیں
خوش نصیبوں ہی کا نالہ بھی رسا ہوتا ہے

جو ترے واسطے جیتے ہیں انہیں کا ہے نصیب
گو ترے واسطے مرنا بھی بھلا ہوتا ہے

دعوتِ جوروستم اس لئے دی ہے بہزاد
درد کو درد بتانے میں مزا ہوتا ہے
 
Top