غزل
(طاہر فراز)
خود کو پڑھتا ہوں، چھوڑ دیتا ہوں
اک ورق روز موڑ دیتا ہوں
اس قدر زخم ہیں نگاہوں میں
روز اک آئینہ توڑ دیتا ہوں
میں پجاری برستے پھولوں کا
چھو کے شاخوں کو چھوڑ دیتا ہوں
کاسائے شب میں خون سورج کا
قطرہ قطرہ نچوڑ دیتا ہوں
کانپتے ہونٹ بھیگتی پلکیں
بات ادھوری ہی چھوڑ دیتا ہوں
ریت کے...
غزل
(ڈاکٹر نزہت انجم)
آج دشمن ہے نگہبان، خدا خیر کرے
ہے ہتھیلی پہ مری جان، خدا خیر کرے
دیکھئے حق میرا ملتا ہے برابر کے نہیں
اُس کے ہاتھوں میں ہے میزان، خدا خیر کرے
جو زمانے کو کبھی لوٹ لیا کرتا تھا
وہ بنا بیٹھا ہے سلطان، خدا خیر کرے
سُرخ پھولوں کو مسل دینا ہے فطرت جس کی
ہے وہ گلشن کا نگہبان،...
غزل
(ڈاکٹر نزہت انجم)
جام ایسا تری آنکھوں سے عطا ہوجائے
ہوش موجود رہے اور نشہ ہوجائے
اس طرح میری طرف میرا مسیحا دیکھے
درد دل ہی میں رہے اور دوا ہوجائے
زندگانی کو ملے کوئی ہُنر ایسا بھی
سب میں موجود بھی ہو اور فنا ہوجائے
معجزہ کاش دیکھا دیں یہ نگاہیں میری
لفظ خاموش رہے، بات ادا ہوجائے
اس طرح...
غزل
(ڈاکٹر نزہت انجم)
رسمِ وفا نبھانا تو غیرت کی بات ہے
وہ مجھ کو بھول جائیں یہ حیرت کی بات ہے
سب مجھ کو چاہتے ہیں یہ شہرت کی بات ہے
میں اُس کو چاہتی ہوں یہ قسمت کی بات ہے
اظہارِ عشق کر ہی دیا مجھ سے آپ نے
یہ بھی جناب آپ کی ہمت کی بات ہے
تعریف کررہے ہیں سبھی آج کل میری
اس میں کوئی ضرور سیاست...
غزل
(ریحانہ نواب)
غزل جو میرؔ کی ہم گنگنانے لگتے ہیں
تو اور بھی وہ ہمیں یاد آنے لگتے ہیں
عجیب شوق ہے یہ کیسا ولولہ دل میں
نظر کے ملتے ہی ہم مُسکرانے لگتے ہیں
بہت قریب سے میں نے بھی اُن کو چاہا تھا
تو آج خواب میں آکر منانے لگتے ہیں
وفا کے پھول کی خوشبو ہے کوبکو پھیلی
تمہاری یاد کے موسم سہانے...
غزل
(ریحانہ نواب)
تم سے وابسطہ تھی زندگانی میری
تم گئے لُٹ گئی شادمانی میری
یہ کہاں آگئی ہے کہانی میری
اشک کرنے لگے ترجمانی میری
غم کا احساس بھی دل سے جاتا رہا
کس نے لوٹی ہے یوں شادمانی میری
اب نہ خواہش، نہ حسرت، نہ کوئی خلش
کتنی بےکیف ہے زندگانی میری
مطمئن ہوکے بیٹھیں نہ اہلِ جفا
رنگ لائے...
غزل
(ریحانہ نواب)
کسی سے بات کرنا بولنا اچھا نہیں لگتا
تجھے دیکھا ہے جب سے ، دوسرا اچھا نہیں لگتا
تیری آنکھوں میں جب سے میں نے اپنا عکس دیکھا ہے
میرے چہرے کو کوئی آئینہ اچھا نہیں لگتا
تیرے بارے میں دن بھر سوچتی رہتی ہوں میں لیکن
تیرے بارے میں سب سے پوچھنا اچھا نہیں لگتا
یہاں اہلِ محبت عمر...
غزل
(طارق سبزواری)
مجھ سے ممکن نہیں ایسی کوئی تحریر لکھوں
آنکھ کو قید لکھوں، پاؤں کو زنجیر لکھوں
ہاں یہ تپتا ہوا سورج، یہ پگھلتے ہوئے لوگ
مجھ سے کہتے ہیں کہ میں دھوپ کی تاثیر لکھوں
میں نے کل خواب میں اک پھول کے لب چومیں ہیں
ہو اجازت تو میں اس خواب کی تعبیر لکھوں
غزل
(طارق سبزواری)
ہجر کی آگ میں اک دن، دل یہ کاغذ کا جل جائے گا
اتنی شدّت سے مت یاد آ، ورنہ دم ہی نکل جائے گا
دھوپ کی شدّتوں کا سما، کیا ہمیشہ رہے گا یہاں
کوئی بادل اِدھر آئے گا اور موسم بدل جائے گا
عہدِ نو کی یہ بےچہرگی ختم ہوگی نہ طارق کبھی
اک تیرے بدل جانے سے کیا زمانہ بدل جائے گا
غزل
(شیاما سنگھ صبا)
سزا دیجئے مجھ کو، خطا کررہی ہوں
نمازِ محبت ادا کررہی ہوں
ناجانے برا یا بھلا کررہی ہوں
میں دشمن کے حق میں دعا کررہی ہوں
میرے دوست دریا کنارے کھڑے ہیں
میں طوفان کا سامنا کررہی ہوں
دیئے زخم جس نے مجھے زندگی بھر
اُسی کے لیئے میں دعا کررہی ہوں
غزل
(ممتاز نسیم ، ہندوستان)
جسے میں نے صبح سمجھ لیا، کہیں یہ بھی شامِ الم نہ ہو
میرے سر کی آپ نے کھائی جو کہیں یہ بھی جھوٹی قسم نہ ہو
وہ جو مسکرائے ہیں بےسبب، یہ کرم بھی اُن کا ستم نہ ہو
میں نے پیار جس کو سمجھ لیا، کہیں یہ بھی میرا بھرم نہ ہو
تو جو حسبِ وعدہ نہ آسکا، تو بہانا بنا ایسا نیا...
غزل
(ممتاز نسیم ، ہندوستان)
چلتے چلتے یہ حالت ہوئی راہ میں، بن پئے مےکشی کا مزا آگیا
پاس کوئی نہیں تھا مگر یوں لگا، کوئی دل سے میرے آ کے ٹکرا گیا
آج پہلے پہل تجربہ یہ ہوا، عید ہوتی ہے ایسی خبر ہی نہ تھی
چاند کو دیکھنے گھر سے جب میں چلی، دوسرا چاند میرے قریب آگیا
اے ہوائے چمن مجھ پہ احساں نہ...
غزل
(ممتاز نسیم ، ہندوستان)
تجھے کیسے علم نہ ہوسکا، بڑی دور تک یہ خبر گئی
تیرے ہی شہر کی شاعرہ، تیرے انتظار میں مر گئی
کوئی باتیں تھیں کوئی تھا سبب، جو میں وعدہ کر کے مُکر گئی
تیرے پیار پر تو یقین تھا، میں خود اپنے آپ سے ڈر گئی
وہ تیرے مزاج کی بات تھی، یہ میرے مزاج کی بات ہے
تو میری نظر سے نہ...
گیت
(شبینا ادیب)
تیری آنکھوں میں رہوں
روشنی بن کر تیرے گھر کے چراغوں میں رہوں
تیرا وعدہ بھی نہ سیاسی ہو
اب فضاؤں میں نہ اُداسی ہو
چھو کے قدموں کو ہر خوشی گزرے
کاش اب یوں ہی زندگی گزرے
میں تیرے ساتھ تیرے دن تیری راتوں میں رہوں
پیار یہ میرا تجھ سے کہتا ہے
دل کی دھڑکن میں تو ہی رہتا ہے
گیت میں...
غزل
(ممتاز نسیم ، ہندوستان)
میری زندگی کی کتاب کا، ہے ورق ورق یوں سجا ہوا
سرِ ابتدا سرِ انتہا، تیرا نام دل پہ لکھا ہوا
یہ چمک دمک تو فریب ہے، مجھے دیکھ گہری نگاہ سے
ہے لباس میرا سجا ہوا، میرا دل مگر ہے بجھا ہوا
میری آنکھ تیری تلاش میں، یوں بھٹکتی رہتی ہے رات دن
جیسے جنگلوں میں ہرن کوئی ہو...
غزل
(معراج فیض آبادی)
ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم
کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی
اک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم
کاہے کا ترکِ وطن، کاہے کی ہجرت بابا
اسی دھرتی کی، اسی دیش کی اولاد ہیں ہم
ہم بھی تعمیرِ وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار...