کاشفی

محفلین
غزل
(طاہر فراز)​
خود کو پڑھتا ہوں، چھوڑ دیتا ہوں
اک ورق روز موڑ دیتا ہوں

اس قدر زخم ہیں نگاہوں میں
روز اک آئینہ توڑ دیتا ہوں

میں پجاری برستے پھولوں کا
چھو کے شاخوں کو چھوڑ دیتا ہوں

کاسائے شب میں خون سورج کا
قطرہ قطرہ نچوڑ دیتا ہوں

کانپتے ہونٹ بھیگتی پلکیں
بات ادھوری ہی چھوڑ دیتا ہوں

ریت کے گھر بنا بنا کے فراز
جانے کیوں خود ہی توڑ دیتا ہوں​
 
Top