کاشفی

محفلین
غزل
(معراج فیض آبادی)
ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم

کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی
اک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم

کاہے کا ترکِ وطن، کاہے کی ہجرت بابا
اسی دھرتی کی، اسی دیش کی اولاد ہیں ہم

ہم بھی تعمیرِ وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم


ہم کو اس دورِ ترقی نے دیا کیا معراج
کل بھی برباد تھے اور آج بھی برباد ہیں ہم
 

عظیم

محفلین
بھائی میں کوشش کروں گا کہ آپ کو بھائی نہ بولوں ارے بھائی مطلب بھائی نہ لکھوں جی بھائی بھائی نہ لکھوں مگر بھائی نہ لکھوں تو بھائی لکھوں کیا ؟
بھائی غلط لکھتا ہوں میں بھائی لکھنے سے گُریز کروں گا اگر ہو سکا تو میرے بھائی لکھے کو بھائی لکھ دیجئے گا !

'' ایک مدت سے اِسی شہر میں آباد ہیں ہم '' اور ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تُلے ہیں اللہ کی آواز پر اللہ اکبر کی آواز بڑائی اپنی بیان کی جاتی ہے اللہ اکبر کی صدا میں !

مَیں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا ۔ مگر بھائی لکھنے سے پرہیز !! :ROFLMAO:
 

کاشفی

محفلین
بھائی میں کوشش کروں گا کہ آپ کو بھائی نہ بولوں ارے بھائی مطلب بھائی نہ لکھوں جی بھائی بھائی نہ لکھوں مگر بھائی نہ لکھوں تو بھائی لکھوں کیا ؟
بھائی غلط لکھتا ہوں میں بھائی لکھنے سے گُریز کروں گا اگر ہو سکا تو میرے بھائی لکھے کو بھائی لکھ دیجئے گا !

'' ایک مدت سے اِسی شہر میں آباد ہیں ہم '' اور ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تُلے ہیں اللہ کی آواز پر اللہ اکبر کی آواز بڑائی اپنی بیان کی جاتی ہے اللہ اکبر کی صدا میں !

مَیں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا ۔ مگر بھائی لکھنے سے پرہیز !! :ROFLMAO:
شاعری میں جہاں غلطیاں ہیں اس کی نشاندہی کریں۔۔:)
 
Top