معراج فیض آبادی

  1. نیرنگ خیال

    چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے (معرؔاج فیض آبادی)

    چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے مسرتوں میں بھی جاگے گناہ کا احساس مرے وجود کو اتنی بھی پارسائی نہ دے بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں خدا کسی کو بھی توفیق آشنائی نہ دے میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں مرے دیوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے اگر یہی...
  2. نیرنگ خیال

    بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون (معرؔاج فیض آبادی)

    بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون لوگ تیرے جرم دیکھیں گے سبب دیکھے گا کون ہاتھ میں سونے کا کاسہ لے کے آئے ہیں فقیر اس نمائش میں ترا دست طلب دیکھے گا کون لا اٹھا تیشہ چٹانوں سے کوئی چشمہ نکال سب یہاں پیاسے ہیں تیرے خشک لب دیکھے گا کون دوستوں کی بےغرض ہمدردیاں تھک جائیں گی جسم پر اتنی...
  3. نیرنگ خیال

    اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے ( معؔراج فیض آبادی)

    اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے میری تھکن کو گرد سفر کا لباس دے پروردگار تو نے سمندر تو دے دیے اب میرے خشک ہونٹوں کو صحرا کی پیاس دے فرصت کہاں کہ ذہن مسائل سے لڑ سکیں اس نسل کو کتاب نہ دے اقتباس دے آنسو نہ پی سکیں گے یہ تنہائیوں کا زہر بخشا ہے غم مجھے تو کوئی غم شناس دے لفظوں میں جذب ہوگیا سب...
  4. نیرنگ خیال

    تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں (معؔراج فیض آبادی)

    تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں مری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے تو لوگ میری انا کی قیمت لگا رہے ہیں میں آندھیوں سے مصالحت کیسے کر سکوں گا چراغ میرے ہوا کی قیمت لگا رہے ہیں...
  5. نیرنگ خیال

    اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے (معراؔج فیض آبادی)

    اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے کیا یہ موسم ترے قانون کے پابند نہیں موسم گل میں یہ دستور خزاں کس کا ہے راکھ کے شہر میں ایک ایک سے میں پوچھتا ہوں یہ جو محفوظ ہے اب تک یہ مکاں کس کا ہے میرے ماتھے پہ تو یہ داغ نہیں تھا پہلے آج آئینے میں ابھرا جو نشاں کس...
  6. نیرنگ خیال

    جسم کا بوجھ اٹھائے چلتے رہیے (معراج فیض آبادی)

    جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے دھوپ میں برف کی مانند پگھلتے رہیے یہ تبسم تو ہے چہروں کی سجاوٹ کے لیے ورنہ احساس وہ دوزخ ہے کہ جلتے رہیے اب تھکن پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے راہ کا خوف یہ کہتا ہے کہ چلتے رہیے زندگی بھیک بھی دیتی ہے تو قیمت لے کر روز فریاد کا انداز بدلتے رہیے
  7. کاشفی

    ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم - معراج فیض آبادی

    غزل (معراج فیض آبادی) ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی اک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم کاہے کا ترکِ وطن، کاہے کی ہجرت بابا اسی دھرتی کی، اسی دیش کی اولاد ہیں ہم ہم بھی تعمیرِ وطن میں ہیں برابر کے شریک در و دیوار...
  8. کاشفی

    محبت کو میری پہچان کردے - معراج فیض آبادی

    غزل (معراج فیض آبادی) محبت کو میری پہچان کردے میرے مولا مجھے انسان کردے بہت دن سے اکیلا چل رہا ہوں خداوندا! سفر آسان کردے در و دیوار شکوہ کررہے ہیں اُسے اک دن میرا مہمان کردے شکستہ بام و در دیکھے نہ جائیں حویلی کو میری میدان کردے میں جب بولوں تو مہکے ساری محفل میری آواز کو لوبان کردے محبت،...
  9. کاشفی

    اسی تھکے ہوئے دستِ طلب سے مانگتے ہیں - معراج فیض آبادی

    غزل (معراج فیض آبادی) اسی تھکے ہوئے دستِ طلب سے مانگتے ہیں جو مانگتے نہیں رب سے، وہ سب سے مانگتے ہیں وہ بھیک مانگتا ہے حاکموں کے لہجے میں ہم اپنے بچوں کا حق بھی ادب سے مانگتے ہیں میرے خدا اُنہیں توفیقِ خودشناسی دے چراغ ہو کہ اُجالا جو شب سے مانگتے ہیں وہ بادشاہ اِدھر مڑ کہ دیکھتا ہی نہیں ہم...
  10. کاشفی

    یہ دنیا عالمِ وحشت میں کیا کیا چھوڑ دیتی ہے - معراج فیض آبادی

    غزل (معراج فیض آبادی) یہ دنیا عالمِ وحشت میں کیا کیا چھوڑ دیتی ہے سمندر کی محبت میں کنارا چھوڑ دیتی ہے بھروسہ کیا کریں اس زندگی کا، یہ تو انساں کو فنا کی وادیوں میں لا کہ تنہا چھوڑ دیتی ہے خُدا محفوظ رکھے ایسی مجبوری سے ہم سب کو جو مجبوری پڑوسی کا جنازا چھوڑ دیتی ہے غریبی وہ برائی ہے وہ...
  11. کاشفی

    ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے - معراج فیض آبادی

    میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے (معراج فیض آبادی) ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے تیری یادوں کو بھی رُسوا نہیں ہونے دیتے کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لئے ہم کسی گھر میں اُجالا نہیں ہونے دیتے آج بھی گاؤں میں...
  12. حیدرآبادی

    غزل - ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے - معراج فیض آبادی

    معراج فیض آبادی ہندوستان کی جان ہی نہیں بلکہ یہ جانِ ادب ، اردو دنیا کا دھڑکتا ہوا دل ہیں۔ یہ ادب کا وہ چاند ہیں جو روزِ اول سے ہی مہِ کامل ہیں ، ایک ایسا مہِ کامل جس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی ، جو کبھی گہن کا شکار نہیں ہوتا۔ "اجین نگر نگم" کی جانب سے منعقدہ کُل ہند مشاعرے میں لکھنؤ کے ممتاز...
Top