اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے (معراؔج فیض آبادی)

نیرنگ خیال

لائبریرین
اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے
نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے

کیا یہ موسم ترے قانون کے پابند نہیں
موسم گل میں یہ دستور خزاں کس کا ہے

راکھ کے شہر میں ایک ایک سے میں پوچھتا ہوں
یہ جو محفوظ ہے اب تک یہ مکاں کس کا ہے

میرے ماتھے پہ تو یہ داغ نہیں تھا پہلے
آج آئینے میں ابھرا جو نشاں کس کا ہے

وہی تپتا ہوا صحرا وہی سوکھے ہوئے ہونٹ
فیصلہ کون کرے آب رواں کس کا ہے

چند رشتوں کے کھلونے ہیں جو ہم کھیلتے ہیں
ورنہ سب جانتے ہیں کون یہاں کس کا ہے​
 
جب بھی کچھ شریک کریں
خاصے کی چیز ہی ہوتی ہے :)
اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے
نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے
کیا خوب مضمون باندھا ہے واہ واہ
شراکت کا شکریہ
سلامت رہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جب بھی کچھ شریک کریں
خاصے کی چیز ہی ہوتی ہے :)
اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے
نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے
کیا خوب مضمون باندھا ہے واہ واہ
شراکت کا شکریہ
سلامت رہیں
حسن ظن ہے شاہ سرکار آپ کا۔۔۔۔ :) ممنون و متشکرم :)

بہت خوب۔۔۔۔ زبردست
جناااب۔ سراپا سپاس ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
ہم تو آج تک معراج کی اسی غزل کو بہترین سمجھتے رہے کہ
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے​
لیکن آپ نے جو غزل ارسال کی ہے یہ تو اس سے بڑھ کر کمال ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ واہ واہ!

خوب انتخاب ہے۔
شکریہ احمد بھائی :)

شکریہ سرکار

ہم تو آج تک معراج کی اسی غزل کو بہترین سمجھتے رہے کہ
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے​
لیکن آپ نے جو غزل ارسال کی ہے یہ تو اس سے بڑھ کر کمال ہے۔
جی فاتح بھائی وہ غزل بھی کمال ہے۔۔۔ لیکن یہ بھی خوبصورت ہے۔ انتخاب کو سراہنے پر شکرگزار ہوں۔ :)

شکریہ عینا۔
 
Top