نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    جون ایلیا کسی لباس کی خوشبو جب اڑ کے آتی ہے - جون ایلیا

    کسی لباس کی خوشبو جب اڑ کے آتی ہے ترے بدن کی جدائی بہت ستاتی ہے ہوا ہے جانتے جانانہ عمر بھر کو جدا یہ جاکنی ہے کہ رشتوں کی بے سباتی ہے ہم ایک ساحلِ دریائے خواب پر ہیں کھڑے پہ جو بھی موج ہے ہم پر سراب لاتی ہے ہے یہ صحنِ شامِ ملال اور آسماں خاموش نہ جانے کس کی تمنا کسے گنواتی ہے ہے یاد...
  2. فرحان محمد خان

    سلیم احمد وہ ہاتھ ہاتھ میں آیا ہے آدھی رات کے بعد - سلیم احمد

    وہ ہاتھ ہاتھ میں آیا ہے آدھی رات کے بعد دیا دیے سے جلایا ہے آدھی رات کے بعد میں آدھی رات تو تیرہ شبی میں کاٹ چکا چراغ کس نے جلایا ہے آدھی رات کے بعد میں جانتا ہوں کے سب سو رہے ہیں محفل میں فسانہ میں نے سُنایا ہے آدھی رات کے بعد ستارے جاگ اٹھے ہیں کسی کی آہٹ سے یہ کون ہے کہ جو آیا...
  3. فرحان محمد خان

    سلیم احمد چھایا ہوا تھا رنگِ غم دل پہ غبار کی طرح - سلیم احمد

    چھایا ہوا تھا رنگِ غم دل پہ غبار کی طرح میں نے اسی غبار سے ڈالی بہار کی طرح رنج ہزارہا سہی دل نہ دُکھے تو کیا علاج بے حس و بے خیال ہوں سنگِ مزار کی طرح چلتا ہوں اپنے زور میں مرکبِ وقت کے بغیر سعی وعمل کی نے پہ ہوں طفلِ سوار کی طرح زورِ ہوا سے اُڑ گئے حبسِ ہوا سے گھٹ گئے قافلہِ حیات میں...
  4. فرحان محمد خان

    سلیم احمد عمر اپنی جہاں جہاں گزری - سلیم احمد

    عمر اپنی جہاں جہاں گزری اچھے لوگوں کے درمیاں گزری کٹ گئی انتظارِ فردا میں کیسے کہیے کہ رائیگاں گزری ساتھ گزرا ہجوم نوحہ گراں دل سے جب یادِ رفتگاں گزری بات کرتے میں ایک پرچھائیں تیری آنکھوں کے درمیاں گزری ہر صدائے نفس تھی بانگِ جرس زندگی مثلِ کارواں گزری دن کٹا تھا تمازتوں میں سلیمؔ سام...
  5. فرحان محمد خان

    سلیم احمد بارہا شب کو یوں لگا ہے مجھے - سلیم احمد

    بارہا شب کو یوں لگا ہے مجھے کوئی سایہ پکارتا ہے مجھے جیسے یہ شہر کل نہیں ہو گا جانے کیا وہم ہو گیا ہے مجھے میں ستاروں کا ایک نغمہ ہوں بیکراں رات نے سُنا ہے مجھے میں ادھورا سا ایک جملہ ہوں اہتماماََ کہا گیا ہے مجھے دکھ ہے احساسِ جرم ہے کیا ہے کوئی اندر سے توڑتا ہے مجھے جیسے میں...
  6. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی ہر مرحلہِ شوق سے لہرا کے گُزر جا - ساغرصدیقی

    ہر مرحلہِ شوق سے لہرا کے گُزر جا آثارِ تلاطم ہوں تو بل کھا کے گُزر جا بہکی ہوئی مخمور گھٹاؤں کی صدا سُن فردوس کی تدبیر کو بہلا کے گُزر جا مایوس ہیں احساس کی اُلجھی ہوئی رائیں پائل دلِ مُجبور کی چھنکا کے گُزر جا یزدان و اہرمن کی حکایات کے بدلے انساں کی روایات کو دُہرا کے گُزر جا کہتی ہیں...
  7. فرحان محمد خان

    سلیم احمد کل نشاطِ قُرب سے موسم بہار اندازہ تھا - سلیم احمد

    کل نشاطِ قُرب سے موسم بہار اندازہ تھا کچھ ہوا بھی نرم تھی کچھ رنگِ گل بھی تازہ تھا تھک کے سنگِ راہ پر بیھٹے تو اُٹھے ہی نہیں حد سے بڑھ کر تیز چلنے کا یہی خمیازہ تھا آئینہ دونوں کے آگے رکھ دیا تقدیر نے میرے چہرے پر لہو تھا رائے گل پر غازہ تھا مجھ کو ملّاحوں کے گیتوں سے محبت ہے مگر رات...
  8. فرحان محمد خان

    سلیم احمد اپنی موج مستی میں ، میں بھی ایک دریا ہوں - سلیم احمد

    اپنی موج مستی میں ، میں بھی ایک دریا ہوں پھر بھی پاسِ صحرا سے اپنی حد میں بہتا ہوں اپنی دید سے اندھا ، اپنی گونج سے بہرا سب کو دیکھ لیتا ہوں سب کی بات سنتا ہوں مجھ میں کسی نے رکھ دی ہے یہ محال کی خواہش میں کہ ریکِ صحرا کو چھلنیوں میں بھرتا ہوں گو چراغِ روشن ہوں پر ہوں رائیگاں اتنا ایک...
  9. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ایک امکاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے دل کے پاس - سلیم احمد

    ایک امکاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے دل کے پاس دل کی دولت خواب ہیں اور خواب مستقبل کے پاس کل جنھیں رخصت کیا تھا وہ مسافر کیا ہوئے کشتیاں ٹوٹی ہوئی لوٹ آئی ہیں ساحل کے پاس میں پلٹ آؤں کا صحرا میں بھٹکنے کے لیے قافلہ میرا پہنچ جائے گا جب منزل کے پاس میری خُوں آلودہ آنکھوں نے یہ منظر بھی سہا...
  10. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ہے کبھی سایہ کبھی ہے روشنی دیوار پر - سلیم احمد

    ہے کبھی سایہ کبھی ہے روشنی دیوار پر رنگ بکھراتی ہے کیا کیا زندگی دیوار پر دونوں ہمسایوں میں ویسے تو محبت ہے بہت ایک جھگڑا پڑ گیا ہے بیچ کی دیوار پر میں اندھیرے میں کھڑا حیرت سے پڑھتا ہوں اسے اک عبارت لکھ رہی ہے روشنی دیوار پر ہم سمجھتے تھے ہمارے بام و در دُھل جائیں گے بارشیں آئیں تو کائی...
  11. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ہر آنکھ کا حاصل دُوری ہے - سلیم احمد

    ہر آنکھ کا حاصل دُوری ہے ہرمنظر اک مُستوری ہے جو سود و زیاں کی فکر کرے وہ عشق نہیں مزدوری ہے سب دیکھتی ہے سب جھیلتی ہے یہ آنکھوں کی مجبوری ہے اس ساحل سے اُس ساحل تک کیا کہیے کتنی دوری ہے یہ قُرب حباب و آب کا ہے یہ وصل نہیں مہجوری ہے میں تجھ کو کتنا چاہتا ہوں یہ کہنا غیر ضروری ہے...
  12. فرحان محمد خان

    سلیم احمد جو آنکھوں کے تقاضے ہیں وہ نظّارے بناتا ہوں - سلیم احمد

    جو آنکھوں کے تقاضے ہیں وہ نظّارے بناتا ہوں اندھیری رات ہے کاغذ پہ میں تارے بناتا ہوں محلے والے میرے کارِ بے مصرف پہ ہنستے ہیں میں بچوں کے لیے گلیوں میں غبّارے بناتا ہوں وہ لوری گائیں گی اور ان میں بچوں کو سلائیں گی میں ماؤں کے لیے پھولوں کے گہوارے بناتا ہوں فضائے نیلگوں میں حسرتِ پرواز...
  13. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ستارہ حرف بناتے ہیں خواب لکھتے ہیں - سلیم احمد

    ستارہ حرف بناتے ہیں خواب لکھتے ہیں تمہارے نام پر اک انتساب لکھتے ہیں حیات سب کے لیے اک سوال لاتی ہے تمام عمر اسی کا جواب لکھتے ہیں میں ان کو حرف بناتا ہوں اور پڑھتا ہوں یہ حادثے مرے دل کی کتاب لکھتے ہیں عجیب رنگ ہیں ان کے عجیب تحریریں یہ روز و شب مری آنکھوں میں خواب لکھتے ہیں سمندورں...
  14. فرحان محمد خان

    سلیم احمد وہ میرا یار دیوانہ بہت تھا رنگ و نکہت کا - سلیم احمد

    وہ میرا یار دیوانہ بہت تھا رنگ و نکہت کا سو اس کی قبر پر کچھ پھول رکھے اور لوٹ آیا میں اس کی رنگ موجوں میں کبھی ڈوبا کبھی ابھرا بدن تھا یا شبِ مہتاب میں بہتا ہوا دریا ترے بارے میں ، میں اس کے سوا کچھ اور کیا کہتا نظر کچھ بھی نہ آیا اس قدر نزدیک سے دیکھا مجھے اک مصرعِ موزوں بنایا حُسنِ فن...
  15. فرحان محمد خان

    سلیم احمد یہ جو اک صورت ہے اب پتھر کے بیچ - سلیم احمد

    یہ جو اک صورت ہے اب پتھر کے بیچ نقش تھی پہلے دلِ آزر کے بیچ دیکھنا ہے اب دیے کے زور کو لا کے رکھ دوں گا ہوا میں در کے بیچ آنکھ ہے نادیدگاں کی منتظر اک کمی لگتی ہے ہر منظر کے بیچ وہ لباسِ درد میں ملبوس تھا سیکڑوں پیوند تھے چادر کے بیچ کیا بتاؤں کیوں ہوئی مجھ کو شکست میرا دشمن تھا مرے لشکر...
  16. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ربط ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ نہیں ملتا - سلیم احمد

    ربط ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ نہیں ملتا مجھ کو دھیان گلیوں میں راستہ نہیں ملتا اس قطارِ روشن میں اک کمی سی لگتی ہے جس پہ نام تھا تیرا وہ دیا نہیں ملتا سب کو ایک حسرت ہے دوسرے کے ملنے کی سب کو اک شکایت ہے دوسرا نہیں ملتا دل میں ہو تو کچھ کہیے جب نہ ہو تو کیا کہیے لفظ مل بھی جاتے ہیں مدعا نہیں...
  17. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی میں کہ آشفتہ و رُسوا سرِ بازار ہوا - ساغر صدیقی

    میں کہ آشفتہ و رُسوا سرِ بازار ہوا چاکِ داماں کا تماشا سرِ بازار ہُوا تیری عصمت کی تجارت پسِ دیوار سہی میری تقدیر کا سَودا سرِ بازار ہُوا پھر کوئی اہلِ جنوں دار پہ چڑھ جائے گا پھر تِرے حُسن کا چرچا سرِ بازار ہُوا ہم نے رکھا ہے اسے دِل کے مکاں میں برسوں جو کبھی ہم سے شناسا سرِ بازار ہُوا...
  18. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی ہوا مہکی مہکی فضا بھیگی بھیگی - ساغر صدیقی

    ہوا مہکی مہکی فضا بھیگی بھیگی چلو آج مانگیں دعا بھیگی بھیگی کسی کی بہکتی ہوئی تشنگی نے بہاروں کو دے دی سزا بھیگی بھیگی گھٹاؤں کو رحمت کی جوش آ گیا کوئی ہو گئی ہے خطا بھیگی بھیگی ذرا صندلیں ہاتھ نزدیک لاؤ سلگنے لگی ہے حنا بھیگی بھیگی حصارِ تمنا میں دم گھٹ رہا ہے ذرا چھیڑ مطرب نوا بھیگی...
  19. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی بازارِ آرزو کی نوا دام چڑھ گئے - ساغر صدیقی

    بازارِ آرزو کی نوا دام چڑھ گئے ہر چیز قیمتوں سے سوا دام چڑھ گئے ہے غازہِ بہار سے محروم ان دنوں مخمور گیسوؤں کی گھٹا دام چڑھ گئے اب قرضِ مے بحال ہو مشکل سے دوستو کہتی ہے میکدے کی فضا دام چڑھ گئے بے چین سُرخ سُرخ لبوں کی فصاحتیں ہیں نکہتوں سے رنگ خفا دام چڑھ گئے مریخ اور زہرہ کئی قیمتوں کے...
  20. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی بدنامیِء حیات سے رنجور ہو گئے - ساغر صدیقی

    بدنامیِء حیات سے رُنجور ہو گئے اے یار! تیری بات سے رُنجور ہو گئے یزداں کے حادثات پہ ہم نے کیا یقین اپنی شکستِ ذات سے رُنجور ہو گئے مرجھا کے رہ گئی غمِ دشنام کی بہار فصلِ تکلفات سے رُنجور ہو گئے ہر رہگزر پہ چور ہیں انسانیت کے پاؤں شیشے کی کائنات سے رُنجور ہو گئے اپنوں نے زندگی میں ہراساں...
Top