سلیم احمد ایک امکاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے دل کے پاس - سلیم احمد

ایک امکاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے دل کے پاس
دل کی دولت خواب ہیں اور خواب مستقبل کے پاس

کل جنھیں رخصت کیا تھا وہ مسافر کیا ہوئے
کشتیاں ٹوٹی ہوئی لوٹ آئی ہیں ساحل کے پاس

میں پلٹ آؤں کا صحرا میں بھٹکنے کے لیے
قافلہ میرا پہنچ جائے گا جب منزل کے پاس

میری خُوں آلودہ آنکھوں نے یہ منظر بھی سہا
جو مرا ساتھی تھا بیٹھا تھا مرے قاتل کے پاس

مجھ سے وہ طالب محبت کا ہے اور واقف ہوں میں
مجھ سے یہ دولت زیادہ ہے مرے سائل کے پاس

عقل پختہ کار کو جن کی خبر تک بھی نہیں
اپنے کاموں کی ہیں کچھ ایسی دلیلیں دل کے پاس

کوئی پورا کر نہیں سکتا جسے اس کے سوا
ایک ایسی بات ہے ہر ناقص و کامل کے پاس
سلیم احمد
 
Top