سلیم احمد چھایا ہوا تھا رنگِ غم دل پہ غبار کی طرح - سلیم احمد

چھایا ہوا تھا رنگِ غم دل پہ غبار کی طرح
میں نے اسی غبار سے ڈالی بہار کی طرح

رنج ہزارہا سہی دل نہ دُکھے تو کیا علاج
بے حس و بے خیال ہوں سنگِ مزار کی طرح

چلتا ہوں اپنے زور میں مرکبِ وقت کے بغیر
سعی وعمل کی نے پہ ہوں طفلِ سوار کی طرح

زورِ ہوا سے اُڑ گئے حبسِ ہوا سے گھٹ گئے
قافلہِ حیات میں ہم ہیں غبار کی طرح

میری بہائے فن ہے یہ مجھ سے ہے کارزرگراں
رکھا گیا دکان میں مجھ کو عیار کی طرح

دل سے غمِ حیات کو عشق سے کھینچ لیجیے
بعد میں پھینک دیجیے دونوں کو خار کی طرح

حالتِ یاس اور گناہ دل میں کوئی خیال سا
رات کی تیرگی میں ہے دیدہِ مار کی طرح

اب مرے برگ و بار میں باقی نہیں نم و نمو
تُو مری زندگی میں تھا فصلِ بہار کی طرح
سلیم احمد
 

طارق شاہ

محفلین
چھایا ہُوا تھا رنگِ غم، دِل پہ غُبار کی طرح
میں نے اُسی غُبار سے، ڈالی بہار کی طرح


کیا کہنے :)
 
Top