نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی غزل : کیا ہوئے بادِ بیاباں کے پکارے ہوئے لوگ - عزیز حامد مدنی

    غزل کیا ہوئے بادِ بیاباں کے پکارے ہوئے لوگ چاک در چاک گریباں کو سنوارے ہوئے لوگ خوں ہوا دل کہ پشیمانِ صداقت ہے وفا خوش ہوا جی کہ چلو آج تمھارے ہوئے لوگ یہ بھی کیا رنگ ہے اے نرگسِ خواب آلودہ شہر میں سب ترے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ خطِ معزولئ اربابِ ستم کھینچ گئے یہ رسن بستہ صلیبوں...
  2. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی نظم : تصویریں - عزیز حامد مدنی

    تصویریں میں نے سوچا ہے کہ خورشید کا ماتم نہ کروں شب کی آغوش میں مے خانے ہیں ، سیّارے ہیں جن کا پرتو مری بےخواب نگاہوں میں رہا ابھی افلاک کی محراب میں وہ تارے ہیں جو خلاؤں میں لٹاتے رہے کرنوں کی ضیا آتشیں ہو کے شفق روز پگھل جاتی ہے روز نظّاروں کی اک لاش سی جل جاتی ہے دور کرنوں سے لپٹتا...
  3. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی نظم : معذرت - عزیز حامد مدنی

    معذرت نور و آہنگ کا افسانہِء بےتاب لیے چشمکِ برق و شرر خندہِء مہتاب لیے محفلِ لالہ رُخاں صبح کا سیلاب لیے زندگانی کا شرر بار فضاؤں میں تو ہے مےِ رفتار بتاں اب بھی ہواؤں میں تو ہے جام و مینا میں ستاروں کی ضیائیں غلطاں رہ گزاروں میں جوانی کے شفق شعلہ فشاں بربط و ساز سے آہنگ کا سیلاب رواں...
  4. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی نظم : نئے نام - عزیز حامد مدنی

    نئے نام خواب آلودہ ، پُر اسرار صنم خانوں میں خاک اور خون میں غلطیدہ بیابانوں میں آہ اے مادرِ گیتی ترے ایوانوں میں حبس ہی حبس ، اندھیرا ہی اندھیرا ہے ابھی اک جہاں سوز جہالت کا بسیرا ہے ابھی علم و عرفاں کے غلط بینیِ پیہم کا نظام ذرّے ذرّے پہ ہے افسونِ روایات کا دام کس قدر خوار یہ ہنگامہِ...
  5. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی نظم : زندانی - عزیز حامد مدنی

    زندانی تم کو دنیا نہیں دے گی غم و آلام کے جام اک تبسم سے سنبھالے ہوئے دنیا کا نظام روک سکتی ہو جنوں خیز ہواؤں کا خرام تم سمجھتی ہو کہ آسان ہے جینا اپنا سیل دریا سے نہ گزرے گا سفینہ اپنا یہ جو کاکل میں مہک ہے یہ جو آنکھوں میں ہے رنگ تیز لَو دیتی ہوئی دل کی یہ دھڑکن یہ اُمنگ سیکھ لے دیدہ و...
  6. فرحان محمد خان

    جاں نثار اختر ہو گیا شاید مرا ذوقِ تجسس کامیاب - جاں نثار اختر

    غزل ہو گیا شاید مرا ذوقِ تجسس کامیاب آج خود مجھ پر پڑی میری نکاہِ انتخاب جانے کس لمحہ دمک اٗٹھے فضائے کائنات کوئی چٹکی میں لئے ہے دیر سے طرفِ نقاب منتظر ہیں آج بھی تیری نگاہِ شوق کے جانے کتنے ماہ و انجم جانے کتنے آفتاب تو نے دیکھا بھی نہیں اور دل دھڑکنے بھی لگا جیسے بن چھیڑے ہوئے بجنے لگے...
  7. فرحان محمد خان

    سابقے

    جاں نثار اختر سلیم احمد ان دو احباب کا اتنا کلام جمع ہو چکا ہے کہ اب ان کے ناموں کے سابقے بن جانے چاہئے
  8. فرحان محمد خان

    جاں نثار اختر نظم : حسیں آگ - جاں نثار اختر

    حسیں آگ تیری پیشانیِ رنگیں میں جھلکتی ہے جو آگ تیرے رخسار کے پھولوں میں دمکتی ہے جو آگ تیرے سینے میں جوانی کی دہکتی ہے جو آگ زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دیدے تیری آنکھوں میں فروزاں ہیں جوانی کے شرار لبِ گلرنگ پہ رقصاں ہیں جوانی کے شرار تیری ہر سانس میں غلطاں ہیں جوانی کے شرار زندگی کی یہ...
  9. فرحان محمد خان

    نظم : عشق ظہیر احمد طہیر

    عشق پیکرِ خاک میں تاثیرِ شرر دیتا ہے آتشِ درد میں جلنے کا ثمر دیتا ہے اک ذرا گردشِ ایّام میں کرتا ہے اسیر دسترس میں نئے پھر شام و سحر دیتا ہے پہلے رکھتا ہے یہ آنکھوں میں شب ِ تیرہ وتار دستِ امکان میں پھر شمس و قمر دیتا ہے دل پہ کرتا ہے یہ تصویر جمالِ ہستی پھر مٹاکر اُسے اک رنگِ دگر دیتا...
  10. فرحان محمد خان

    جاں نثار اختر منتخب رباعیات - جاں نثار اختر

    رباعی یہ چرخ ، یہ خورشید ، یہ انجُم یہ قمر یہ قوس قزح ، یہ دشت ، یہ سبزہُ تر یہ سرو ، یہ ساحل ، یہ شگوفے ، یہ شفق تُم ہوتے تو کاہے کو بھٹکتی یہ نظر
  11. فرحان محمد خان

    جاں نثار اختر نظم : پچھلی پریت - جاں نثار اختر

    پچھلی پریت ہوا جب مُنہ اندھیرے پریت کی بنسی بجاتی ہے کوئی رادھا کسی پنگھٹ کے اوپر گنگناتی ہے مجھے اک بار پھر اپنی محبت یاد آتی ہے افق پر آسماں جھک کر زمیں کو پیار کرتا ہے یہ منظر ایک سوئی یاد کو بیدار کرتا ہے مجھے اک بار پھر اپنی محبت یاد آتی ہے ملا کر مُنہ سے مُنہ ساحل سے جب موجیں گزرتی...
  12. فرحان محمد خان

    سلیم احمد جیسے کسی دریا میں سرِ آب پرندے - سلیم احمد

    غزلجیسے کسی دریا میں سرِ آب پرندے لگتے ہیں مجھے انجم و مہتاب پرندے بچوں کے لیے حیرتِ پرواز نہیں ہے اس شہر میں مدت سے ہیں نایاب پرندے کس دیس اُنھیں لے گئیں بیتاب اُڑانیں آنکھوں کے نشیمن سے گئے خواب پرندے میں ساحلِ افتادہ پہ خاموش کھڑا ہوں دریا میں نہاتے ہیں سرِ آب پرندے میں کوشہِ صحرا میں...
  13. فرحان محمد خان

    فنا بلند شہری قطعات - فناؔ بلند شہری

    قطعاتمیں تو صنم پرست ہوں مجھ کو حرم سے کیا غرض تیرا کرم نصیب ہو باغِ ارم سے کیا غرض میری بہشت عشق ہے یار کی بارگاہِ ناز سن تو فقیرِ ناز ہوں جاہ و حشم سے کیا غرض ------------------ ہو مبارک زہد والوں کو ارم کا آسرا مجھ کو کافی ہے تیرے چشمِ کرم کا آسرا جب سے پایا ہے تیرے لطف و کرم کا آسرا...
  14. فرحان محمد خان

    سلام - نصیر ترابی

    سلام مجرئی جوہرِ قرطاس و قلم کھلتے ہیں طبل بجتا ہے قلمرو میں عَلم کھلتے ہیں آمدِ ماہِ محرم سے گھروں میں اپنے درِ فردوس کی صورت درِ غم کھلتے ہیں یہ بھی اسرارِ دعا برسرِ مجلس ہی کھلے لب کھلیں یا نہ کھلیں بابِ کرم کھلتے ہیں غنچہ و گُل بھی کوئی چشمِ عزا ہیں گویا بند ہوتے ہیں جو بے آب تو نم کھلتے...
  15. فرحان محمد خان

    رباعی از فرحان محمد خان

    رباعیانساں کچھ بھی نہیں سوائے وحشت پیدا ہوئے ہم لوگ برائے وحشت ہوتے ہیں محوِ رقص دونوں اکثر اک محور پہ میں اور خدائے وحشتفرحان محمد خان
  16. فرحان محمد خان

    میر عشاق کے تئیں ہے عجز و نیاز واجب : میر تقی میر

    غزلعشاق کے تئیں ہے عجز و نیاز واجب ہے فرض عین رونا دل کا گداز واجب یوں سرفرو نہ لاوے ناداں کوئی وگرنہ رہنا سجود میں ہے جیسے نماز واجب ناسازی طبیعت ایسی پھر اس کے اوپر ہے ہر کسو سے مجھ کو ناچار ساز واجب لڑکا نہیں رہا تو جو کم تمیز ہووے عشق و ہوس میں اب ہے کچھ امتیاز واجب صرفہ نہیں ہے مطلق جان...
  17. فرحان محمد خان

    خاموش ہیں ششدر ہیں پریشان بہت ہیں- فرحان محمد خان

    غزل خاموش ہیں ششدر ہیں پریشان بہت ہیں کیوں کر نہ ہوں دل ایک ہے ارمان بہت ہیں ایسا یہاں کوئی نہیں اپنا جسے کہتے یوں شہر میں کہنے کو تو انسان بہت ہیں افسوس کہ ایمان کی بو تک نہیں آتی یہ بات الگ صاحبِ ایمان بہت ہیں کچھ علم کی دولت بھی عطا کر انھیں مولا کہنے کو یہاں صاحبِ عرفان بہت ہیں...
  18. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی نظم : انقلابِ وقت - ساغرؔ صدیقی

    انقلابِ وقتایک یہ بھی انقلابِ وقت کی تصویر ہے رہزنی، غارت گری، بیداد کی تشہیر ہے عاقبت ہے سر برہنہ آبرو نخچیر ہے نعرہء حق و صداقت لائقِ تعزیر ہے ایک یہ بھی انقلابِ وقت کی تصویر ہے ایک شب اجڑا کسی بابا کی بیٹی کا سُہاگ اُڑ گئی پھولوں کی خوشبو ڈس گئے کلیوں کو ناگ ظُلمتوں میں سو رہے ہیں چاندنی...
  19. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی نظم : مُجرم - شکیب جلالی

    مُجرم یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے جس کے فُٹ پاتھ فقیروں سے اَٹے رہتے ہیں خَستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے یہ بھکاری کے جنھیں دیکھ کے گِھن آتی ہے ہڈّیاں جسم کی نکلی ہوئی پچکے ہوئے گال میلے سر میں جوئیں ، اعضاء سے ٹپکتا ہوا کوڑھ رُوح بیمار ، بدن سست نگاہیں پامال ہاتھ پھیلائے...
  20. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی نظم : خانہ بدوش - شکیب جلالی

    خانہ بدوش یہ جنگل کی آہو یہ صحرا کے راہی تصنّح کے باغی دلوں کے سپاہی فقیری لبادے تو اندازِ شاہی یہ اکھڑ ، یہ انمول یہ بانگے سجیلے یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے مصائب سے کھیلے حوادث کے پالے ہیں روشن جبیں ، گو ہیں پاؤں میں چھالے یہ پیتے ہیں ہنس ہنس کے تلخی کے پیالے کہ جیسے کوئی مَدھ بھرا...
Top