نظم : عشق ظہیر احمد طہیر

عشق
پیکرِ خاک میں تاثیرِ شرر دیتا ہے
آتشِ درد میں جلنے کا ثمر دیتا ہے

اک ذرا گردشِ ایّام میں کرتا ہے اسیر
دسترس میں نئے پھر شام و سحر دیتا ہے

پہلے رکھتا ہے یہ آنکھوں میں شب ِ تیرہ وتار
دستِ امکان میں پھر شمس و قمر دیتا ہے

دل پہ کرتا ہے یہ تصویر جمالِ ہستی
پھر مٹاکر اُسے اک رنگِ دگر دیتا ہے

جذب ِ صادق ہو تو کرتا ہے مقدر منزل
کارِ بے نام کو عنوانِ ظفر دیتا ہے

دور جائیں تو بلاتا ہے یہ اپنی جانب
لوٹ کر آئیں تو پھر اذنِ سفر دیتا ہے

اُس میں قید ِ درودیوار نہیں رکھتا عشق
اپنے آشفتہ مزاجوں کو جو گھر دیتا ہے

یہ کرشمہ ہے عجب عشق ِ تضاد آور کا
پھول سے جسم کو پتھر کا جگر دیتا ہے

لمس پارس تو نہیں بنتا ،مگر یہ سچ ہے
ڈھونڈنے والوں کو مٹی میں گہر دیتا ہے

تابِ گویائی چرا لیتا ہے ان ہونٹوں کی
عشقِ پرکار جب آنکھوں کو نظر دیتا ہے

قلبِ فنکار کو دیتا ہے یہ روحِ احساس
پھر اسے جراءتِ اظہار ِ ہنر دیتا ہے

آؤ چلتے ہیں ذرا بزم ِ سخن میں اسکی
لوگ کہتے ہیں وہ لفظوں کو اثر دیتا ہے
 
Top