ظہیراحمدظہیر

  1. ارشد چوہدری

    بے وفائی نے تیری ستایا بہت----برائے اصلاح

    الف عین ظہیراحمدظہیر صابرہ امین محمد خلیل الرحمٰن @محمّداحسن سمیع؛راحل؛ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے وفائی نے تیری ستایا بہت بھول جاؤں تجھے دل میں آیا بہت -------------- کام آیا نہ میرا کمایا ہوا -------یا مال میرا مرے کام آیا نہیں سب اجڑتا...
  2. ارشد چوہدری

    بھول جانا نہ وعدہ جو ہم سے کیا----------برائے اصلاح

    الف عین ظہیراحمدظہیر محمد خلیل الرحمٰن @محمّداحسن سمیع؛راحل؛ ---------------- بھول جانا نہ وعدہ جو ہم سے کیا لوگ سمجھیں گے ورنہ تجھے بے وفا --------یا لوگ ورنہ کہیں گے تجھے بے وفا ---------------- دور مجھ سے نہ جاؤ گے وعدہ کرو مجھ کو بھائی تمہاری ہے ہر اک ادا...
  3. ارشد چوہدری

    مرے دل کے آنگن میں آیا ہے کوئی -----------برائے اصلاح

    الف عین ظہیراحمدظہیر محمد خلیل الرحمٰن @محمّدسمیع؛راحل؛ صابرہ امین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرے دل کے آنگن میں آیا ہے کوئی محبّت کی نگری میں لایا ہے کوئی ------------- وہ خوابوں ،خیالوں پہ چھایا ہوا ہے مرے دل میں ایسے سمایا ہے کوئی -------- مرے دل کے تاروں کو چھیڑا ہے جس...
  4. امین شارق

    نئی غزل برائے تبصرہ و اصلاح شاعر امین شارؔق

    گھر کی مرغی دال برابر پھر بھی ٹپکے رال برابر سانپ ہے اک دن ڈس جائے گا دودھ پلا کر پال برابر آپکی باتیں سر آنکھوں پر میری باتیں ٹال برابر کبھی تو مچھلی پھنس جائے گی ہم پھینکیں گے جال برابر وہ اپنی سازش پہ خوش ہیں ہم بھی چلے گے چال برابر جانے کیا ہوگا مستقبل اب تک ماضی حال برابر کاش کہ لکھنے...
  5. ظہیراحمدظہیر

    چبھی ہے دل میں وہ نوکِ سنانِ وہم و گماں

    احبابِ کرام ! ایک پرانی غزل پیشِ محفل ہے ۔ امید ہے کچھ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔ چبھی ہے دل میں وہ نوکِ سنانِ وہم و گماں ہوا ہے نقشِ سویدا نشانِ وہم و گماں میں ایک سایۂ لرزاں ہوں ہست و نیست کے بیچ مرا وجود ہے بارِ گرانِ وہم و گماں نہ کھا فریب خریدارِ رنگ و بوئے چمن محیطِ صحنِ...
  6. ظہیراحمدظہیر

    تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں

    احبابِ کرام! تقریباً ساڑھے تین سال پہلے اپنی منظومات کو اردو محفل میں اس خیال کے تحت پوسٹ کرنا شروع کیا تھا کہ اس طرح سارا کلام ایک جگہ جمع ہوجائے گا۔ اندازہ تھا کہ کچھ ہی دنوں میں اس کارِ بیکار سے فارغ ہوجاؤں گا ۔ لیکن یہ سلسلہ غیر متوقع طور پر ایک مشہور ہستی کی آنت کی طرح دراز ہوتا چلا گیا ۔...
  7. فرحان محمد خان

    نظم : عشق ظہیر احمد طہیر

    عشق پیکرِ خاک میں تاثیرِ شرر دیتا ہے آتشِ درد میں جلنے کا ثمر دیتا ہے اک ذرا گردشِ ایّام میں کرتا ہے اسیر دسترس میں نئے پھر شام و سحر دیتا ہے پہلے رکھتا ہے یہ آنکھوں میں شب ِ تیرہ وتار دستِ امکان میں پھر شمس و قمر دیتا ہے دل پہ کرتا ہے یہ تصویر جمالِ ہستی پھر مٹاکر اُسے اک رنگِ دگر دیتا...
  8. ظہیراحمدظہیر

    مت سمجھو کہ ہجرت کے طلسمات میں گم ہیں

    غزل مت سمجھو کہ ہجرت کے طلسمات میں گم ہیں ہم لوگ وفاؤں کے تضادات میں گم ہیں رستوں میں نہیں سات سمندر کی یہ دوری یہ سات سمندر تو مری ذات میں گم ہیں ہم لے کے کہاں جائیں محبت کا سوال اب دل والے بھی اپنے ہی مفادات میں گم ہیں کشکولِ انا کو بھی چٹختا کوئی دیکھے سب اہلِ کرم لذتِ خیرات میں گم...
  9. ظہیراحمدظہیر

    آئینہ گر کے دُکھ

    آئینہ گر کے دُکھ پتھرہی رہو ، شیشہ نہ بنو شیشوں کی ابھی رُت آئی نہیں اِس شہرمیں خالی چہروں پر آنکھیں تو اُبھرآئی ہیں مگر آنکھوں میں ابھی بینائی نہیں خاموش رہو ، آواز نہ دو کانوں میں سماعت سوتی ہے سوچوں کو ابھی الفاظ نہ دو احساس کو زحمت ہوتی ہے اظہارِ حقیقت کے لہجے سننےکا ابھی دستور نہیں...
  10. ظہیراحمدظہیر

    بہت اوج پر ہے ستارہ ہوا کا

    غزل تری زلف سمجھی اشارہ ہوا کا بہت اوج پر ہے ستارہ ہوا کا کماں کھنچ گئی ہے دھنک کی فضا میں شعاعوں نے رستہ نکھارا ہو ا کا چراغوں سے ہے ربط فانوس جیسا تو پھولوں سے رشتہ ہمارا ہوا کا ملا یوں توازن ہمیں گردشوں سے پرندے کو جیسے سہارا ہوا کا خزاں زاد پتّوں پہ لکھ کر...
  11. ظہیراحمدظہیر

    جنگ اندھیرے سے بادِ برہم تک

    غزل جنگ اندھیرے سے بادِ برہم تک ہے چراغوں کی آخری دم تک آدمی پر نجانے کیا گزری ابنِ آدم سے ابنِ درہم تک تم مسیحا کی بات کرتے ہو ؟ ابھی خالص نہیں ہے مرہم تک ! معجزہ دیکھئے توکّل کا ! ریگِ صحرا سے آبِ زمزم تک داستا ں ہے شگفتنِ دل کی خندہء گل سے اشکِ شبنم تک اک سفر ہے کہ طے نہیں ہوتا...
  12. ظہیراحمدظہیر

    جانے کتنے راز چھپے ہیں ٹھہرے ٹھہرے پانی میں

    غزل جانے کتنے راز چھپے ہیں ٹھہرے ٹھہرے پانی میں کون اُتر کردیکھےاب اس یاد کے گہرے پانی میں جل پریوں کی خاموشی تو منظر کا ا یک دھوکا ہے فریادوں کا شور مچا ہے اندھے بہرے پانی میں کوئی سیپی موتی اُگلتی ہے ، نہ موجیں کوئی راز حرص و ہوا کے ایسے لگے ہیں چار سُو پہرے پانی میں جھیل کے نیلے...
  13. ظہیراحمدظہیر

    پھر کسی آئنہ چہرے سے شناسائی ہے

    غزل پھر کسی آئنہ چہرے سے شناسائی ہے عاشقی اپنے تماشے کی تمنائی ہے مہربانی بھی مجھے اب تو ستم لگتی ہے اک بغاوت سی رَگ و پے میں اُتر آئی ہے سنگِ برباد سے اٹھتا ہے عمارت کا خمیر خاکِ تخریب میں پوشیدہ توانائی ہے عصرِ حاضر کے مسائل ہوئے بالائے حدود اب نہ آفاقی رہا کچھ ،...
  14. ظہیراحمدظہیر

    پگھل کر روشنی میں ڈھل رہوں گا

    غزل پگھل کر روشنی میں ڈھل رہوں گا نظر آکر بھی میں اوجھل رہوں گا بچھڑ جاؤں گا اک دن اشک بن کر تمہاری آنکھ میں دوپَل رہوں گا ہزاروں شکلیں مجھ میں دیکھنا تم سروں پر بن کے میں بادل رہوں گا میں مٹی ہوں ،کوئی سونا نہیں ہوں جہاں کل تھا ، وہیں میں کل رہوں گا بدن صحرا ہے لیکن آنکھ نم ہے اِسی...
  15. ظہیراحمدظہیر

    یہ کہہ رہے ہیں وہ کالک اُچھالنے والے

    غزل یہ کہہ رہے ہیں وہ کالک اُچھالنے والے ہمی ہیں شہر کی رونق اُجا لنے وا لے ۔ ق ۔ منافقت کی عفونت بھی ساتھ لائے ہیں گلے میں ہار گلابوں کا ڈالنے والے دہن میں لقمۂ شیریں بھی رکھتے جاتے ہیں مرے وجود میں لاوا اُبا لنے وا لے ۔ ہجوم چنتا ہے ساحل پہ سیپیوں سے گہر نظر سے گم...
  16. ظہیراحمدظہیر

    بنا کےپھر مجھے تازہ خبر نہ جاؤ تم

    غزل بنا کےپھر مجھے تازہ خبر نہ جاؤ تم اب آگئے ہو تو پھر چھوڑ کر نہ جاؤ تم میں ڈرتے ڈرتے سناتا ہوں اپنے اندیشے میں کُھل کے یوں نہیں کہتا کہ ڈر نہ جاؤ تم کہاں کہاں مجھے ڈھونڈو گے پرزہ پرزہ ہوں مجھے سمیٹنے والے! بکھر نہ جاؤ تم بڑھے ہو تم مری جانب تو ڈر یہ لگتا ہے مرے قریب سے آکر گزر نہ جاؤ تم...
  17. ظہیراحمدظہیر

    منظر سے ہٹ گیا ہوں میں ، ایسا نہیں ابھی

    غزل منظر سے ہٹ گیا ہوں میں ، ایسا نہیں ابھی ٹوٹا تو ہوں ضرور ، پہ بکھرا نہیں ابھی وہ بھی اسیرِ ِ فتنہء جلوہ نمائی ہے میں بھی حصارِ ذات سے نکلا نہیں ابھی آسودہء خمار نہیں مضمحل ہے آنکھ جو خواب دیکھنا تھا وہ دیکھا نہیں ابھی داغ ِ فراقِ یار کے پہلو میں یاس کا اک زخم اور بھی ہے جو مہکا...
  18. ظہیراحمدظہیر

    ملتی نہیں منزل تو مقدر کی عطا ہے

    ملتی نہیں منزل تو مقدر کی عطا ہے یہ راستہ لیکن کسی رہبر کی عطا ہے کب میری صفائی کوبھلا مانے گی دنیا الزام ہی جب ایسے فسوں گر کی عطا ہے جچتے نہیں آنکھوں میں شبستان و گلستاں یہ دربدری ایسے کسی در کی عطا ہے ساحل کے خزانے نہیں دامن میں ہمارے جو کچھ بھی ملا ، گہرے سمندر کی عطا ہے اُجرت...
  19. ظہیراحمدظہیر

    حلیفِ ظلمتِ شب تار ہم نہیں ہونگے

    وطنِ عزیز میں ایک الیکشن کے موقع پر یہ مسلسل غزل کئی سال پہلے لکھی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حلیفِ ظلمتِ شب تار ہم نہیں ہونگے سحر سے برسرِ پیکار ہم نہیں ہونگے یہ خوابِ غفلت ِبیخود ہمیں گوارا ہے فروغِ جبر میں بیدار ہم نہیں ہونگے ہمیں عزیز ہے حرمت جہادِ منزل کی شریکِ کاوشِ بیزار ہم نہیں ہونگے کسی حریفِ...
  20. ظہیراحمدظہیر

    آنکھوں میں اب یقین کی جنت نہیں رہی

    آنکھوں میں اب یقین کی جنت نہیں رہی لہجے میں اعتماد کی شدت نہیں رہی آشوبِ دہر ایسا کہ دنیا تو برطرف خود پر بھی اعتبار کی ہمت نہیں رہی - ق - کس کس گلی نہ لے گئی آشفتگی ہمیں کس کس نگر میں درد کی شہرت نہیں رہی ویران اب بھی رہتا ہے عالم خیال کا تنہائیوں میں پہلی سی وحشت نہیں رہی ہر شام اب بھی...
Top