حلیفِ ظلمتِ شب تار ہم نہیں ہونگے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
وطنِ عزیز میں ایک الیکشن کے موقع پر یہ مسلسل غزل کئی سال پہلے لکھی تھی ۔
۔ ۔ ۔ ۔

حلیفِ ظلمتِ شب تار ہم نہیں ہونگے
سحر سے برسرِ پیکار ہم نہیں ہونگے

یہ خوابِ غفلت ِبیخود ہمیں گوارا ہے
فروغِ جبر میں بیدار ہم نہیں ہونگے

ہمیں عزیز ہے حرمت جہادِ منزل کی
شریکِ کاوشِ بیزار ہم نہیں ہونگے

کسی حریفِ ستمگر کی پیشوائی میں
شریکِ مجمع ِ اغیار ہم نہیں ہونگے

سجاؤ سر پہ کسی کے بھی تاجِ سلطانی
نقیبِ شوکتِ دربار ہم نہیں ہونگے

جہاں میں عظمتِ کردار کے ہیں قائل ہم
قتیلِ گرمیء گفتار ہم نہیں ہونگے

بکی ہے گرچہ حمایت ہماری ہر عنوان
رہینِ جبہء و دستار ہم نہیں ہونگے

اگر نہ بن سکے مظلوم کی سِپر نہ سہی
ستم کے ہاتھ میں تلوار ہم نہیں ہونگے

اگر ہے قیمتِ گویائی درد کی تشہیر
تو پھر سے تشنہء اظہار ہم نہیں ہونگے

جمالِ خرقہء درویشی ہے نظر میں ظہیر
اسیر ِ طرّہء خمدار ہم نہیں ہونگے

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۸​
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت ردیف کو خوبصورتی سے نباہتے ہوئے کیا خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ مبارک باد
 
واہ ظہیر بھائی، شاندار
یہ خوابِ غفلت ِبیخود ہمیں گوارا ہے
فروغِ جبر میں بیدار ہم نہیں ہونگے

سجاؤ سر پہ کسی کے بھی تاجِ سلطانی
نقیبِ شوکتِ دربار ہم نہیں ہونگے

جہاں میں عظمتِ کردار کے ہیں قائل ہم
قتیلِ گرمیء گفتار ہم نہیں ہونگے

اگر نہ بن سکے مظلوم کی سِپر نہ سہی
ستم کے ہاتھ میں تلوار ہم نہیں ہونگے

اگر ہے قیمتِ گویائی درد کی تشہیر
تو پھر سے تشنہء اظہار ہم نہیں ہونگے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ خوابِ غفلت ِبیخود ہمیں گوارا ہے
فروغِ جبر میں بیدار ہم نہیں ہونگے

جہاں میں عظمتِ کردار کے ہیں قائل ہم
قتیلِ گرمیء گفتار ہم نہیں ہونگے

بہت ہی عمدہ۔۔۔ کیا کہنے سر۔۔۔۔ ماشاءاللہ
 
Top