نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی موجیں ہیں اور بادہ گساروں کے قافلے - ساغر صدیقی

    موجیں ہیں اور بادہ گساروں کے قافلے رقصاں ہیں مست مست کناروں کے قافلے یُوں کاروانِ زیست رَواں ہیں کے ساتھ ساتھ رفتار میں ہیں بادہ گساروں کے قافلے پَلکوں پہ جم رہی ہیں غمِ زندگی کی اوس بانہوں میں سو گئے ہیں سہاروں کے قافلے اُس عنبریں سی زُلفِ پریشاں کو دیکھ کَر بیتاب ہو گئے ہیں چناروں کے قافلے...
  2. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی تم نے جو چاہا تھا دنیا بن گئی - ساغر صدیقی

    تم نے جو چاہا تھا دنیا بن گئی آگ تھی پھولوں کا گجرا بن گئی رات کچھ یوں مائلِ نغمہ تھا دل چاندنی سازِ تمنا بن گئی میرے جامِ مے سے اُڑ کر اک چھنیٹ صبح کے ماتھے کا قشقہ بن گئی جب کسی صورت نہ عنواں مل سکا آرزو بے نام صحرا بن گئی زندگی کی بات ساغرؔ کیا کہیں اک تمنا تھی تقاضا بن گئی ساغر صدیقی
  3. فرحان محمد خان

    سلیم احمد کوئی ستارہِ گرداب آشنا تھا میں - سلیم احمد

    کوئی ستارہِ گرداب آشنا تھا میں کہ موج موج اندھیروں میں ڈوبتا تھا میں اس ایک چہرے میں آباد تھے کئی چہرے اس ایک شخص میں کس کس کو دیکھتا تھا میں نئے ستارے مری روشنی میں چلتے تھے چراغ تھا کہ سرِ راہ جل رہا تھا میں سفر میں عشق کے ایک ایسا مرحلہ آیا وہ ڈھونڈتا تھا مجھے اور کھو گیا تھا میں...
  4. فرحان محمد خان

    سلیم احمد لمحہِء رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا - سلیم احمد

    لمحہِء رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا جو نہ پُر ہو گا کبھی ایسا خلا بن جائے گا یہ نئے نقشِ قدم میرے بھٹکنے سے بنے لوگ جب ان پر چلیں گے راستہ بن جائے گا گونج سننی ہو تو تنہا وادیوں میں چیخنے ایک ہی آواز سے اک سلسلہ بن جائے گا جذب کر دے میری مٹی میں لطافت کا مزاج پھر وہ تیرے شہر کی آب و...
  5. فرحان محمد خان

    افتخار مغل یہ ہم جو چپ ہیں کوئی ماجرا نہیں کہتے - افتخار مغل

    یہ ہم جو چپ ہیں کوئی ماجرا نہیں کہتے ہمارے آنسوؤں سے پوچھ کیا نہیں کہتے ہم ایسے سادہ طبیعت کہاں ملیں گے تمھیں کہ لٹ لٹا کے بھی تم کو برا نہیں کہتے وہ اور لوگ تھے جو تم کو تم سے مانگ گئے ہم اور لوگ ہیں ، ہم مدعا نہیں کہتے زبانِ حال سے کیوں اپنے دل کا حال کہیں ہمارے شعر کوئی ان کہا نہیں...
  6. فرحان محمد خان

    افتخار مغل اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی حکایت تھی کہ بس - افتخار مغل

    اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی حکایت تھی کہ بس اور کہانی پر ہمیں بھی اتنی حیرت تھی کہ بس دل سا وحشی زیر کر کے بھی تھا میں ہارا ہوا وصل کی ساعت گزرنے پر وہ حسرت تھی کہ بس جینے پر آئے تو ہم بھی جی لیے اس کے بغیر ہم ! جنھیں اس شخص کی اتنی ضرورت تھی کہ بس دل کو تیرے رنگ و بو کا ایسا لپکا تھا ، نہ...
  7. فرحان محمد خان

    سلیم احمد اور کیا بتاؤں میں زندگی کی ظلمت میں - سلیم احمد

    اور کیا بتاؤں میں زندگی کی ظلمت میں اک چراغ روشن تھا آدمی کی صورت میں زندگی کا رخ جن سے دفعتاََ بدل جائے حادثے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں محبت میں جانے کتنے ہنگامے دل میں جاگ جاتے ہیں جب کتابِ ماضی کو دیکھتا ہوں فرصت میں ایک اجنبی چہرہ کُھب گیا ہے آنکھوں میں جانے کس کو دیکھا ہے میں نے کس کی...
  8. فرحان محمد خان

    سلیم احمد نقش تو بنائے ہیں کچھ غزل کی صورت میں - سلیم احمد

    نقش تو بنائے ہیں کچھ غزل کی صورت میں یہ کتابِ فردا ہے دیکھیے گا فرصت میں خیر و شر کی خبروں کو مانتے تو سب ہی ہیں کس کو ہوش رہتا ہے جبر اور ضرورت میں دونوں درد دیتی ہیں آہِ سرد دیتی ہیں فرق کچھ نہیں ایسا نفرت و محبت میں ہوتی ہے صداقت میں خامشی کی گہرائی صرف شور ہوتا ہے حرفِ بے صداقت...
  9. فرحان محمد خان

    سلیم احمد یہ طلسمِ رنگ ہے یا سحر ہے تحریر کا - سلیم احمد

    یہ طلسمِ رنگ ہے یا سحر ہے تحریر کا دم بہ دم چہرہ بدلتا ہے تری تصویر کا دونوں ساتھی ہیں کسی اک قید سے بھاگے ہوئے میرا تیرا ربط ہے یا جبر ہے زنجیر کا اس سرے سے اُس سرے تک دوڑنا آساں نہیں میرے تیرے درمیاں اک دشت ہے تاخیر کا لوگ جو تخریب کے الزام میں مارے گے اُن کی آنکھوں میں بھی کوئی...
  10. فرحان محمد خان

    سلیم احمد افق پر جا ملیں گے آسماں سے - سلیم احمد

    افق پر جا ملیں گے آسماں سے یہ کتنا فاصلہ ہو گا یہاں سے اندھیرے کے گھنیرے حاشیوں سے یکایک روشنی آئی کہاں سے ہوا نے دی درِ ویراں پہ دستک کئی پرچھائیاں نکلیں مکاں سے سلیقہ جس کو مرنے کا نہیں ہے وہ اٹھ جائے ہمارے درمیاں سے یقیں کی بات میں کچھ بھی نہیں تھا نئے پہلو ہوئے پیدا گماں سے...
  11. فرحان محمد خان

    سلیم احمد وہ ابتداؤں کی ابتدا ہے ، وہ انتہاؤں کی انتہا ہے - سلیم احمد

    وہ ابتداؤں کی ابتدا ہے ، وہ انتہاؤں کی انتہا ہے ثنا کرے اس کی کوئی کیوں کر ، بشر ہے لیکن خدا نما ہے وہ کون ہے منتظر تھا جس کا جہانِ نورانیاں ازل سے گواہ ہے کہکشاں ابھی تک کہ کوئی اس راہ سے کیا ہے وہ سرِ تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے خود ہی عالم وجود کی ساری وسعتوں پر محیط ہے جو وہ دائرہ...
  12. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی گل ہوئی شمعِ شبستاں چاند تارے سو گئے - ساغر صدیقی

    گل ہوئی شمعِ شبستاں چاند تارے سو گئے موت کے پہلو میں شامِ غم کے مارے سو گئے بے قراری میں بھی اکثر درد مندانِ جنوں اے فریبِ آرزو تیرے سہارے سو گئے کاروبارِ گرمئ دوراں کی ٹھنڈی راکھ میں اے شگوفوں کے خداوندو! شرارے سو گئے دے رہی ہے آج بھی موجِ حوادث لوریاں شورشِ طوفاں سے گھبرا کے کنارے سو گئے...
  13. فرحان محمد خان

    افتخار مغل ترے خیال نے کیا کیا جگا دیا مجھ میں - افتخار مغل

    ترے خیال نے کیا کیا جگا دیا مجھ میں کہ مجھ کو تُو نے دوبارہ بنا دیا مجھ میں ہوا چلی تو دریچے سے آ کے خوشبو نے کوئی چراغ سا جیسے جلا دیا مجھ میں بڑے دنوں میں فراغت ملی تو جانِ خیال ترے وجود نے اپنا پتا دیا مجھ میں کچھ ایسا ہے کہ بہ بُھولا ہے تُو نہ یاد رہا کہ جلتا بُجھتا رہا ہے ترا دیا...
  14. فرحان محمد خان

    منٹو اقوالِ منٹو

    قانون بنانے والے جاہل نہیں ہو سکتے، لیکن سمجھ میں نہیں آتا قوانین میں اکثر مضحکہ خیز خامیاں کیوں رہ جاتی ہیں -------- ہم انسان کی فطری کمزوریاں دبا سکتے ہیں، ان کو کسی حد تک روک سکتے ہیں، مگر ان کا قطعی انسداد نہیں کر سکتے -------- گورنمنٹ نام نہاد عصمت فروشی کے انسداد کی تدبیریں سوچتی ہے اندھا...
  15. فرحان محمد خان

    افتخار مغل اگر شعور کا بندِ نقاب کُھل جائے - افتخار مغل

    اگر شعور کا بندِ نقاب کُھل جائے حدیثِ اصلِ عذاب و ثواب کُھل جائے حریمِ شعر پہ دستک دیے چلے جاؤ عجب نہیں کہ کوئی ایک باب کُھل جائے وہ جس کو خود پہ بھی کُھلنے نہیں دیا میں نے اگر زمانے پہ میرا وہ خواب کُھل جائے یہ میری ہست بندھی ہے تری محبت سے میں سوچتا ہوں اگر یہ طناب کُھل جائے غزل کی...
  16. فرحان محمد خان

    افتخار مغل آپ خنجر بنوں اور آپ ہی گھائل ہو جاؤں - افتخار مغل

    آپ خنجر بنوں اور آپ ہی گھائل ہو جاؤں زہر بھی آپ بنوں آپ ہی زائل ہو جاؤں گھنگرو بن کے بجوں تیرے ہر اک گام پہ میں تُو جو کہہ دے تو ترے پاؤں کی پائل ہو جاؤں یہ بھی ہو سکتا ہے میں مانگ لوں تجھ کو تجھ سے یہ بھی ہو سکتا ہے اک روز میں سائل ہو جاؤں شام بن کر میں اُتر آؤں دریچے سے ترے بن کے...
  17. فرحان محمد خان

    افتخار مغل تمہارے سامنے اک مرتبہ خدا لے جائے - افتخار مغل

    تمہارے سامنے اک مرتبہ خدا لے جائے پھر اس کے بعد بلا سے اگر قضا لے جائے گر آبرو ہی سلامت نہیں بہ مقتلِ زیست تو پھر یہ کاسہِ سر کوئی کیوں بچا لے جائے طلا بنایا ہے ، خود کو کھپا کے ہجراں میں جسے ہوس ہو وہ ہم سے سے یہ کیمیا لے جائے تمہارا سودا اگر سر میں ہے تو میں بھی ہوں یہ مُشتِ خاک بدن ہے سو...
  18. فرحان محمد خان

    افتخار مغل تری صدا پہ پلٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا - افتخار مغل

    تری صدا پہ پلٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا سو نصف نصف میں بٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا پسِ انا بھی وہی اک سکوتِ مرگِ انا کہ یہ نقاب اُلٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا اب ایک بار بہم ہو کے بھی ذرا دیکھیں کہ ایک ایک میں بٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا گہے اتار کے اک سمت رکھ دیے خد و خال طلسمِ جسم سے ہٹ کر بھی ہم...
  19. فرحان محمد خان

    افتخار مغل نگوں کہیں بھی کبھی سر نہیں کیا ہم نے - افتخار مغل

    نگوں کہیں بھی کبھی سر نہیں کیا ہم نے یونہی تو زیست کو دو بھر نہیں کیا ہم نے بنا لیا تھا بزرگوں نے اک مکان ، مگر تمام عمر اسے گھر نہیں کیا ہم نے دیا زیادہ ہے دنیا کو اور لیا کم ہے کبھی حساب برابر نہیں کیا ہم نے اگرچہ زیست کے بازار میں رہائش کی پر اپنا نرخ مقرر نہیں کیا ہم نے وہ آدمی ہے...
  20. فرحان محمد خان

    افتخار مغل یہ میری آنکھ میں جو اَن کہی محبت ہے - افتخار مغل

    یہ میری آنکھ میں جو اَن کہی محبت ہے مرا تمام اثاثہ یہی محبت ہے ادھورے پن سے تو لگتا ہے جیسے دنیا بھی کسی کی نصف میں چھوڑی ہوئی محبت ہے میں جانتا ہوں کہ ہے اور سا مرا انجام میں جانتا ہوں مجھے اور سی محبت ہے یہ چاندنی جو مرے چار سُو ہے یہ تُو ہے یہ دل میں دھوپ سی جو ہے تری محبت ہے میں اس...
Top