سلیم احمد لمحہِء رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا - سلیم احمد

لمحہِء رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا
جو نہ پُر ہو گا کبھی ایسا خلا بن جائے گا

یہ نئے نقشِ قدم میرے بھٹکنے سے بنے
لوگ جب ان پر چلیں گے راستہ بن جائے گا

گونج سننی ہو تو تنہا وادیوں میں چیخنے
ایک ہی آواز سے اک سلسلہ بن جائے گا

جذب کر دے میری مٹی میں لطافت کا مزاج
پھر وہ تیرے شہر کی آب و ہوا بن جائے گا

کھینچ لائے گی بگولوں کو یہ ویرانی مری
میری تنہائی سے میرا فاصلہ بن جائے گا

اس میں لو رکھ دوں کا میں جلتے ہوئے احساس کی
لفظ جو ہونٹوں سے نکلے گا دیا بن جائے گا

جگنوؤں کی مشعلوں سے صحن کی دیوار پر
رقص کرتی روشنی کا دائرہ بن جائے گا

اک برہمن نے یہ آ کے صحنِ مسجد میں کہا
عشق جس پتھر کو چھو لے وہ خدا بن جائے گا

ایک سیدھی بات ہے ملنا نہ ملنا عشق میں
اس پہ سوچو گے تو یہ بھی مسئلہ بن جائے گا

میرے سینے میں ابھی اک جذبہِء بے نام ہے
ضبط کرتے کرتے حرفِ مدعا بن جائے گا

دل میں جو کچھ ہے وہ کہہ دو دوست سے ورنہ سلیمؔ
حرفِ ناگفتہ دلوں کا فاصلہ بن جائے گا
سلیم احمد
 
Top