سلیم احمد افق پر جا ملیں گے آسماں سے - سلیم احمد

افق پر جا ملیں گے آسماں سے
یہ کتنا فاصلہ ہو گا یہاں سے

اندھیرے کے گھنیرے حاشیوں سے
یکایک روشنی آئی کہاں سے

ہوا نے دی درِ ویراں پہ دستک
کئی پرچھائیاں نکلیں مکاں سے

سلیقہ جس کو مرنے کا نہیں ہے
وہ اٹھ جائے ہمارے درمیاں سے

یقیں کی بات میں کچھ بھی نہیں تھا
نئے پہلو ہوئے پیدا گماں سے

خموشی اس گرہ کو کھولتی ہے
جو کھل سکتی نہیں لفظ و بیاں سے

کبھی اپنی طرف بھی لوٹ آنا
اگر فرصت ملے کارِ جہاں سے

میں موسم کے تقاضے دیکھتا ہوں
سفر کی فال لی ابرِ رواں سے​
سلیم احمد
 
Top