سلیم احمد یہ طلسمِ رنگ ہے یا سحر ہے تحریر کا - سلیم احمد

یہ طلسمِ رنگ ہے یا سحر ہے تحریر کا
دم بہ دم چہرہ بدلتا ہے تری تصویر کا

دونوں ساتھی ہیں کسی اک قید سے بھاگے ہوئے
میرا تیرا ربط ہے یا جبر ہے زنجیر کا

اس سرے سے اُس سرے تک دوڑنا آساں نہیں
میرے تیرے درمیاں اک دشت ہے تاخیر کا

لوگ جو تخریب کے الزام میں مارے گے
اُن کی آنکھوں میں بھی کوئی خواب تھا تعمیر کا

بے خیالی میں لکیریں کھنچتا رہتا تھا میں
جانے کیسے بن گیا خاکہ تری تصویر کا

میں سمجھتا ہوں کہ میرے پاؤں ہیں میرا نصیب
میں جدھر جاؤں وہی ہے فیصلہ تقدیر کا

سانپ میرے گھر کے دروازے سے لپٹا تھا مگر
جھٹپٹے میں شام کے دھوکا ہوا زنجیر کا

کتنے لکھنے والے اس حسرت میں مٹی ہو گئے
صفحہِ آبِ رواں ہو نقش ہو تحریر کا

کس کے حرفِ آتشیں سے لوحِ امکاں جل اُٹھی
کس کے ہاتھوں نے دکھایا معجزہ تحریر کا

جانے کیسا خواب دیکھا تھا لڑکپن میں سلیمؔ
منتظر رہنا پڑا ہے عمر بھر تعبیر کا
سلیم احمد
 
Top