افتخار مغل اگر شعور کا بندِ نقاب کُھل جائے - افتخار مغل

اگر شعور کا بندِ نقاب کُھل جائے
حدیثِ اصلِ عذاب و ثواب کُھل جائے

حریمِ شعر پہ دستک دیے چلے جاؤ
عجب نہیں کہ کوئی ایک باب کُھل جائے

وہ جس کو خود پہ بھی کُھلنے نہیں دیا میں نے
اگر زمانے پہ میرا وہ خواب کُھل جائے

یہ میری ہست بندھی ہے تری محبت سے
میں سوچتا ہوں اگر یہ طناب کُھل جائے

غزل کی بات ولوں پر کُھلے تو ایسے کُھلے
ہوا پہ جیسے حدیثِ گلاب کُھل جائے

وہ اس طرح سے کُھلا مجھ پہ افتخار مغل
ہوا کے جھونکے سے جیسے کتاب کُھل جائے​
افتخار مغل
 
Top