سلیم احمد اور کیا بتاؤں میں زندگی کی ظلمت میں - سلیم احمد

اور کیا بتاؤں میں زندگی کی ظلمت میں
اک چراغ روشن تھا آدمی کی صورت میں

زندگی کا رخ جن سے دفعتاََ بدل جائے
حادثے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں محبت میں

جانے کتنے ہنگامے دل میں جاگ جاتے ہیں
جب کتابِ ماضی کو دیکھتا ہوں فرصت میں

ایک اجنبی چہرہ کُھب گیا ہے آنکھوں میں
جانے کس کو دیکھا ہے میں نے کس کی صورت میں

شہر اور نگر بدلے دشت اور گھر بدلے
فرق کچھ نہیں آیا آدمی کی حالت میں

اب نہ یادِ ماضی ہے اور نہ فکرِ مستقبل
صرف ہوش اتنا ہے زندہ ہوں اذیت میں

اپنی اپنی منزل پر سب اُترتے جاتے ہیں
جیسے کچھ مسافر ہوں ریل کی رفاقت میں

عمرِ مختصر اپنی صرف عشق میں گزری
کتنے کام کر لیتے دو گھڑی کی فرصت میں
سلیم احمد
 
Top