سلیم احمد اپنی موج مستی میں ، میں بھی ایک دریا ہوں - سلیم احمد

اپنی موج مستی میں ، میں بھی ایک دریا ہوں
پھر بھی پاسِ صحرا سے اپنی حد میں بہتا ہوں

اپنی دید سے اندھا ، اپنی گونج سے بہرا
سب کو دیکھ لیتا ہوں سب کی بات سنتا ہوں

مجھ میں کسی نے رکھ دی ہے یہ محال کی خواہش
میں کہ ریکِ صحرا کو چھلنیوں میں بھرتا ہوں

گو چراغِ روشن ہوں پر ہوں رائیگاں اتنا
ایک طاق میں رکھا دوپہر میں جلتا ہوں

ڈوبنے کا ڈر ہونا چاہیے سفینوں کو
مجھ کو خوفِ طوفاں کیا میں تو ایک تنکا ہوں

میرے پاس آتے ہیں مجھ سے خوف کھاتے ہیں
میں ہجومِ طفلاں میں سانپ کا تماشا ہوں​
سلیم احمد
 
Top