غزل
مجھے چند باتیں بتا دی گئیں
سمجھ میں نہ آئیں تو لادی گئیں
مسائل کی تہہ تک نہ پہنچا گیا
مصائب کی فصلیں اُگا دی گئیں
بڑا شور گونجا ، بڑا شر اُٹھا
رگیں دکھ رہی تھیں ہلا دی گئیں
سہولت سے مہمان کھیلیں شکار
درختوں پہ چڑیاں سجا دی گئیں
سفر واپسی کا بھی ہے ناگزیر
تو پابندیاں کیوں لگا دی گئیں
کڑی...