نصیر ترابی غزل : شہر میں کس سے سخن رکھیئے ، کدھر کو چلیئے - نصیر ترابی

غزل
شہر میں کس سے سخن رکھیئے ، کدھر کو چلیئے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیئے

اتنا بے حال بھی ہونا کوئی اچھا تو نہیں
اب وہ کس حال میں ہے اس کی خبر کو چلیئے

یاں جو نقشِ کفِ پا ہے سو بساطِ جاں ہے
اک ذرا دیکھ کے اس راہ گزر کو چلیئے

دل بھی شعلے کی طرح اپنی ہوا میں گُم ہے
رقص کرتے ہوئے اک بار ادھر کو چلیئے

در و دیوار سے راتوں کو صدا آتی ہے
صبح سے پہلے کسی اور نگر کو چلیئے

مصلحت حلقہ کُناں رہتی ہے اُس کے اطراف
کس توقع پہ وہاں اپنی بَسر کو چلیئے

پھر کسی نام کی اک شام سرِ بام آئی
دل کی یہ ضد ہے کہ بس ایک نظر کو چلیئے

ہر طرف ایک سا عالم ہے جہاں بھی رُکیے
ہر طرف ایک سی گردش ہے جدھر کو چلیئے

دل سرائے میں دیا شام کو جلتے ہیں نصیرؔ
کوئی کہتا ہے کہیں سیر و سفر کو چلیئے
نصیرؔ ترابی
1991ء
 

یاسر شاہ

محفلین
کیا غضب کی غزل ہے -


شہر میں کس سے سخن رکھیئے ، کدھر کو چلیئے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیئے

اتنا بے حال بھی ہونا کوئی اچھا تو نہیں
اب وہ کس حال میں ہے اس کی خبر کو چلیئے

یاں جو نقشِ کفِ پا ہے سو بساطِ جاں ہے
اک ذرا دیکھ کے اس راہ گزر کو چلیئے
 
Top