غزل : وقوفِ ہجر میں ہر زغمِ بندگی موقوف - م م مغل

غزل
وقوفِ ہجر میں ہر زغمِ بندگی موقوف
نمازِ صوت و سخن کی ادائگی موقوف

ہنر ملال کے قالب میں رقص کرتا رہے
سو دائروں سے اُلجھنے کی تندہی موقوف

میں خیر گاہ سے نکلا دریدہ دامنِ دل
مراجعت کا سفر ختم سرخوشی موقوف

وہ خوش مثال زقند اختیار کرتا ہے
سراب زاریِ دل پر سپردگی موقوف

اُسے ملال نہ ہو مجھ کو مجمّع پا کر
گزشتِ عمر کی سب خوش سلیقگی موقوف

عجیب رُت ہے زمستاں کی زرد ہوتی ہوئی
اور ایک لمس کی خواہش میں شعلگی موقوف

چراغ نے بھی سیاہی لکھی ہے در پردہ
کہ تیرگی سے زیادہ ہے روشنی موقوف

تنازعات سے بڑھ کر نہیں ہے بینائی
سو منظروں سے بہلنے کی خوش دلی موقوف

خرامِ موجِ تنفس ہے بدگماں ایسا
دل و دماغ معطل ہیں زندگی موقوف

غزالِ عمر تعاقب نصاب رہ نہ سکا
ہر ایک گام پہ لکھا تھا ہم رَہی موقوف

بکھیرنے کو ہے مجھ کو ملالِ خود نظری
کہ خد و خال ہراساں ہیں چہرگی موقوف

خوشی کے سُرخ لبادے میں رائگاں تعبیر
سو خواب ہوتے ہوئے خواب کی خوشی موقوف

کسے نصیب ہے محمودؔ ایڑیوں کا طلسم
سو خود کو جاری کیا اور تشنگی موقوف
م م مغل
 

الف عین

لائبریرین
یہ کسی جریدے سے نقل کر رہے ہیں یا محمود کے مجموعے سے جو شاید چھپ چکا ہے۔ یا نیٹ پر کہیں سے کاپی پیسٹ کیا گیا ہے.؟
 
Top