رئیس امروہوی غزل : ہجومِ غم سے مفَر کا خیال کیوں آیا - رئیس امروہوی

غزل
ہجومِ غم سے مفَر کا خیال کیوں آیا
یہ سُوچتا ہوں سَحر کا خیال کیوں آیا

بہت دنوں سے قدم بھی جدھر نہ اُٹھے تھے
بہت دنوں میں ادھر کا خیال کیوں آیا

جنونِ شوق تری سمت کیوں ہوا مائل
جہاں نورد کو گھر کا خیال کیوں آیا

ترے بغیر ہر اک انجمن ہے ویرانہ
ترے بغیر سفر کا خیال کیوں آیا

ابھی تو شہر میں قحطِ شرابِ ناب نہیں
کسی کی مست نظر کا خیال کیوں آیا

یہ کیا ہوا کہ ہوائے سحر نہیں آئی!
فقط ہوائے سحر کا خیال کیوں آیا

رہِ حیات بھی ناقابلِ گزر تو نہیں
تمہاری راہ گزر کا خیال کیوں آیا
رئیسؔ امروہوی
 
Top