نصیر ترابی غزل : ہے دگر سب سے مرے سَروِ سر افراز کا رنگ - نصیر ترابی

غزل
ہے دگر سب سے مرے سَروِ سر افراز کا رنگ
وہ تو بول اُٹھتا ہے رنگوں میں اس انداز کا رنگ

میرے موسم کو طبق مرے لہو کی گردش
تیرے الفاظ کی خوشبو تری آواز کا رنگ

تیری آنکھوں سے نمایاں مرے دل میں پیچاں
کسی انجام کا پرتو کسی آغاز کا رنگ

فصلِ آئندہ کے قصوں میں بھی کام آئے گا
میرے پندار کا اسلوب ترے ناز کا رنگ

کون سی رُت میں فضا دل کی کھلے گی آخر
کِن ہواؤں میں کھلے گا مری آواز کا رنگ

کم سخن ہو کے بھی لبریزِ سخن ہے گویا
اب کے گہرا ہے بہت غمزۂ غماز کا رنگ

دل ربائی میں رہی چہرہء خاموش کی بات
خوش نمائی میں رہا طعنۂ طناز کا رنگ

شب اگر ہے تو کسی توشۂ آزار کی شب
رنگ اگر ہے تو کسی خوابِ پس انداز کا رنگ

خاک اُڑاتے ہوئے جھونکے ہیں کہ سناٹا ہے
رقص کرتا ہوا شعلہ ہے کہ آواز کا رنگ

اُس کے جاتے ہی ہر اک آس کی لَے ٹوٹ گئی
پھر نہ وہ شمع کی لَو ٹہری نہ وہ ساز کا رنگ

فیضؔ کے بعد کہاں کوئی نواگر کہ نصیرؔ
"حرفِ سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ"
نصیرؔ ترابی
1985ء
 
Top