نصیر ترابی غزل : وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو - نصیر ترابی

غزل
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اُس کو

نظر نہ آئے تو اسکی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اُس کو

وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اُس کو

وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو

ابھی سے جانا بھی کیا اس کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اُس کو

اسے یہ دُھن کہ مجھے کم سے کم اداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اُس کو

پناہ ڈھونڈ رہی ہے شبِ گرفتا دلاں
کوئی پتاؤ مرے گھر کا راستا اُس کو

غزل میں تذکزہ اس کا نہ کر نصیرؔ کہ اب
بھلا چکا وہ تجھے تو بھی بھول جا اُس کو
نصیرؔ ترابی
1973ء
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اُس کو

نظر نہ آئے تو اسکی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اُس کو

وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اُس کو

وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو

ابھی سے جانا بھی کیا اس کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اُس کو

اسے یہ دُھن کہ مجھے کم سے کم اداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اُس کو

پناہ ڈھونڈ رہی ہے شبِ گرفتا دلاں
کوئی پتاؤ مرے گھر کا راستا اُس کو

غزل میں تذکزہ اس کا نہ کر نصیرؔ کہ اب
بھلا چکا وہ تجھے تو بھی بھول جا اُس کو
بہت خوب۔
عمدہ غزل۔
شریک محفل کرنے کا شکریہ فرحان بھائی۔
 
Top