غزل
(مخدوم محی الدین)
پھر چھڑی رات ، بات پھولوں کی
رات ہے یا بارات پھولوں کی
پھول کے ہار ، پھول کے گجرے
شام پھولوں کی ، رات پھولوں کی
آپ کا ساتھ ، ساتھ پھولوں کا
آپ کی بات ، بات پھولوں کی
نظریں ملتی ہیں ، جام ملتے ہیں
مل رہی ہے حیات پھولوں کی
کون دینا ہے جان پھولوں پر
کون کرتا ہے بات پھولوں...
غزل
(مخدوم محی الدین - حیدرآباد 1908-1969)
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مُسکراتی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر
بانسری کی سریلی سہانی صدا
یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر
یاد کے چاند دل میں اُترتے رہے
چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر
کوئی دیوانہ گلیوں میں...
غزل
(قتیل شفائی)
جب اپنے اعتقاد کے محور سے ہٹ گیا
میں ریزہ ریزہ ہو کے حریفوں میں بٹ گیا
دشمن کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر
میدانِ کارزار کا پانسہ پلٹ گیا
تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی
تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا
درپیش اب نہیں ترا غم کیسے مان لوں
کیسا تھا وہ پہاڑ جو رستے سے ہٹ گیا...
غزل
(قتیل شفائی)
اب تو بیداد پہ بیداد کرے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا
زندگی بھاگ چلی موت کے دروازے سے
اب قفس کون سا ایجاد کرے گی دنیا
ہم تو حاضر ہیں پر اے سلسلہء جورِ قدیم
ختم کب ورثہء اجداد کرے گی دنیا
سامنے آئیں گے اپنی ہی وفا کے پہلو
جب کسی اور کو برباد کرے گی دنیا
کیا...
غزل
(سرسوَتی سرن کیف)
جینا مرنا دونوں محال
عشق بھی ہے کیا جی کا وبال
مال و منال و جاہ و جلال
اپنی نظر میں وہم و خیال
ہم نہ سمجھ پائے اب تک
دنیا کی شطرنجی چال
کچھ تو شہ بھی تمہاری تھی
ورنہ دل کی اور یہ مجال
کس کس سے ہم نبٹیں گے
ایک ہے جان اور سو جنجال
مست کو گرنے دے ساقی
ہاں اس کے شاعر کو...
غزل
(سردار گنڈا سنگھ مشرقی)
تیری محفل میں جتنے اے ستم گر جانے والے ہیں
ہمیں ہیں ایک اُن میں جو ترا غم کھانے والے ہیں
عدم کے جانے والو دوڑتے ہو کس لیے، ٹھہرو
ذرا مل کے چلو ہم بھی وہیں کے جانے والے ہیں
صفائی اب ہماری اور تمہاری ہو تو کیوں کر ہو
وہی دشمن ہیں اپنے جو تمہیں سمجھانے والے ہیں
کسے ہم...
غزل
(سردار گنڈا سنگھ مشرقی)
کی مے سے ہزار بار توبہ
رہتی نہیں برقرار توبہ
تم مے کرو ہزار بار توبہ
تم سے یہ نبھے قرار توبہ
بندوں کو گنہ تباہ کرتے
ہوتی نہ جو غم گسار توبہ
ہوتی ہے بہار میں معطل
کرتے ہیں جو میگسار توبہ
مقبول ہو کیوں نہ گر کریں ہم
با دیدہء اشک بار توبہ
ہوگی کبھی مشرقی نہ قبول...
غزل
(شاد عارفی)
چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں
سمجھ سکو تو ٹھکانے کی بات کرتا ہوں
شراب تلخ پلانے کی بات کرتا ہوں
خود آگہی کو جگانے کی بات کرتا ہوں
سخنوروں کو جلانے کی بات کرتا ہوں
کہ جاگتوں کو جگانے کی بات کرتا ہوں
اُٹھی ہوئی ہے جو رنگینیء تغزل پر
وہ ہر نقاب گرانے کی بات کرتا ہوں
اس انجمن...
غزل
(شاد عارفی)
جو بھی اپنوں سے الجھتا ہے وہ کر کیا لے گا
وقت بکھری ہوئی طاقت کا اثر کیا لے گا
خار ہی خار ہیں تاحدِّ نظر دیوانے
ہے یہ دیوانہء انصاف ادھر کیا لے گا
جان پر کھیل بھی جاتا ہے سزاوار قفس
اس بھروسے میں نہ رہیئے گا یہ کر کیا لے گا
پستیء ذوقِ بلندیء نظر ، دار و رسن
ان سے تو مانگنے...
غزل
(مرزا غالب رحمتہ اللہ علیہ)
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت!
جگر کو مرے عشق خوں نابہ مشرب
لکھے ہے خداوند نعمت سلامت
علی الرغم دشمن شہیدِ وفا ہوں
مبارک مبارک، سلامت سلامت
نہیں گر سر و برگ ادراک معنی
تماشائے نیرنگِ صورت سلامت
دو عالم کی ہستی پہ خط فنا کھینچ
دل و...
غزل
(مرزا غالب مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہمزباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیئے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
غزل
(دواکر راہی)
اس شہرِ نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے
ہر ہاتھ میں دولت ہے، ہر آنکھ سوالی ہے
شاید غمِ دوراں کا مارا کوئی آجائے
اس واسطے ساغر میں تھوڑی سی بچا لی ہے
ہم لوگوں سے یہ دنیا بدلی نہ گئی لیکن
ہم نے نئی دنیا کی بنیاد تو ڈالی ہے
اُس آنکھ سے تم خود کو کس طرح چھپاؤ گے
جو آنکھ پسِ پردہ بھی...
غزل
(دواکر راہی)
کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی
رسّی تو جل گئی ہے مگر بَل ہیں آج بھی
انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے
دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہیں آج بھی
اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی
مطلب یہ ہے کہ ذہن مقفل ہیں آج بھی
باتیں تمہاری شیخ و برہمن خطا معاف
پہلے کی طرح غیر مدلل ہیں آج بھی...
غزل
(مینا کماری - 1932-1972)
(فلم اداکارہ جنہیں "ملکہ غم" کہا جاتا ہے۔ "تنہا چاند" ان کا شعری مجموعہ ہے۔)
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
میرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
نمی سی آنکھ میں اور ہونٹ بھی بھیگے ہوئے سے ہیں
یہ بھیگا پن ہی دیکھو مسکراہٹ ہوتی جاتی ہے
تیرے قدموں کی آہٹ...
غزل
(اختر مسلمی)
تم اپنی زباں خالی کر کے اے نکتہ ورو پچھتاؤ گے
میں خوب سمجھتا ہوں اس کو جو بات مجھے سمجھاؤ گے
اک میں ہی نہیں ہوں تم جس کو جھوٹا کہہ کر بچ جاؤ گے
دنیا تمہیں قاتل کہتی ہے کس کو کس کو جھٹلاؤ گے
یا راحتِ دل بن کر آؤ یا آفتِ دل بن کر آؤ!
پہچان ہی لوں گا میں تم کو جس بھیس میں بھی تم...
غزل
(ارادھنا پرساد)
یا خدا کچھ تو درد کم کر دے
یا جدا مجھ سے میرا غم کر دے
بڑھ رہی دوریوں کو کم کر دے
اور اس میں کو آج ہم کر دے
سجدہ کرتے رہیں قیامت تک
چاہے تو سر مرا قلم کر دے
کاش قسمت میں چھت میسر ہو
مولیٰ میرے ذرا کرم کر دے
میرے خوابوں کا آئینہ تم ہو
رشتہ کو دل سے محترم کر دے
تم سے ہی تو...