جو بھی اپنوں سے الجھتا ہے وہ کر کیا لے گا - شاد عارفی

کاشفی

محفلین
غزل
(شاد عارفی)
جو بھی اپنوں سے الجھتا ہے وہ کر کیا لے گا
وقت بکھری ہوئی طاقت کا اثر کیا لے گا

خار ہی خار ہیں تاحدِّ نظر دیوانے
ہے یہ دیوانہء انصاف ادھر کیا لے گا

جان پر کھیل بھی جاتا ہے سزاوار قفس
اس بھروسے میں نہ رہیئے گا یہ کر کیا لے گا

پستیء ذوقِ بلندیء نظر ، دار و رسن
ان سے تو مانگنے جاتا ہے مگر کیا لے گا

رہبرِ قوم و وطن، اس کو خدا شرمائے
خود جو بھٹکا ہو وہ اوروں کی خبر کیا لے گا

شمعِ محفل کا بقیہ ہے فروغ اُمید
شام سے جس کا یہ عالم ہو سحر کیا لے گا

باغباں کوشش بے جا پہ مگن ہے لیکن
بھنگ بوتا ہے جو گلشن میں، ثمر کیا لے گا

شاعر گوہرِ بے آب زمانہ، اے شاد
شعر فہموں سے کبھی دادِ ہنر کیا لے گا
 
Top