ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
-
بے مثال اشعار ہیں ۔ یہاں اس شعر میں نہ صرف "ہزار ہا شجر --- "کی جمع کے صیغے کی ترکیب بلکہ اس پر "بہتیرے" کا مفعولی اطلاق ، غزل کی ردیف "ہے" کی مفرد نوعیت سے متصادم ہے ا۔ لیکن بیان جاندار ایسا ہے کہ شعر زبان کا محاورہ بلکہ ایک ضرب المثل بن گیا ۔ یہی کمال ہے آتش کے آتشیں بیان کا۔

سید عاطف علی بھائی ، آتش کا شعر تو درست ہے ۔ ہزارہا شجر کے ساتھ "ہے" لانا قواعد کے لحاظ سے بالکل ٹھیک ہے ۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی واحد سے پہلے غیر معین تعدادلکھی ہو تو اسے واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ہزارہا شجر راہ میں ہے اور ہزار ہا شجر راہ میں ہیں دونوں ٹھیک ہیں اور مستعمل ہیں ۔ مولوی عبدالحق کی قواعد اردو کے متعلقہ صفحے کا عکس حوالے کے لئے ذیل میں لگا رہا ہوں ۔
qawaid urdu — Postimages
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آتش کی اس غزل میں اصل غلطی اس کے مقطع میں ہے
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے

یہاں آتش نے "ٹھہر" کو بروزن فاع باندھ دیا ہے جبکہ اس کا وزن فعو ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اصل غزل میں ٹھہر کے بجائے ٹھیر کا لفظ ہو ۔ ٹھیر کی صورت میں مصرع وزن سے خارج نہیں ہوتا ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگرچہ یہ ایک بہت بڑے شاعر کی غزل ہے لیکن اساتذہ سے یہ سوال ہے کہ قافیہ کی اختتامی "ر" اور ردیف کی "ر" میں جو تنافر ہے۔ اس سے متعلق آپ کیا فرمائیں گے؟
اگر آپ ر کو ایک trill کے طور پر ادا کریں جیسے لفظ ذرہ میں مشدد ر کو کیا جاتا ہے تو تنافر محسوس نہیں ہوگا۔
کیا ایک بڑی غزل کی وجہ سے ایسے عیوب کو درگزر کر دیا جاتا ہے؟
تنافر عام گفتگو میں اکثر واقع ہوتا ہے، یہ زبان کی اپنی محدودیت ہے۔ شاعری فطری بول چال کے جتنا قریب ہو اتنی بلند ہو جاتی ہے۔ اگر تنافر دور کرنے کے لیے اس غزل کی ردیف میں رد و بدل کیا جائے تو زبان و بیان کی بے ساختگی ساتھ جاتی ر ہے۔

ہوائے دورِ مئے خوشگوار ہے رہ میں
تمھی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگر آپ ر کو ایک trill کے طور پر ادا کریں جیسے لفظ ذرہ میں مشدد ر کو کیا جاتا ہے تو تنافر محسوس نہیں ہوگا۔

تنافر عام گفتگو میں اکثر واقع ہوتا ہے، یہ زبان کی اپنی محدودیت ہے۔ شاعری فطری بول چال کے جتنا قریب ہو اتنی بلند ہو جاتی ہے۔ اگر تنافر دور کرنے کے لیے اس غزل کی ردیف میں رد و بدل کیا جائے تو زبان و بیان کی بے ساختگی ساتھ جاتی ر ہے۔

ہوائے دورِ مئے خوشگوار ہے رہ میں
تمھی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
رہنمائی کے لیے بہت شکریہ، سلامت رہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمّد احسن سمیع :راحل:
اگرچہ یہ ایک بہت بڑے شاعر کی غزل ہے لیکن اساتذہ سے یہ سوال ہے کہ قافیہ کی اختتامی "ر" اور ردیف کی "ر" میں جو تنافر ہے۔ اس سے متعلق آپ کیا فرمائیں گے؟
کیا ایک بڑی غزل کی وجہ سے ایسے عیوب کو درگزر کر دیا جاتا ہے؟
قریشی صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہ عیب تنافر عام طور پر پچھلی صدی کے اوائل میں نمایاں ہونا شروع ہوا تھا اور شاید حسرت موہانی نے پہلے پہل اس پر زیادہ زور دینا شروع کیا تھا۔ کلاسیکی اساتذہ اس کی زیادہ پروا نہیں کرتے تھے اور کلاسیکی شاعری میں اس کی مثالیں عام مل جائیں گی، انکے زمانے میں یہ شاید عیب تھا ہی نہیں۔ ویسے مجھے تو اب بھی نہیں لگتا۔ :)
 
Top