حیدر علی آتش

  1. سیما علی

    آتش مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے

    مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے الٹتی ہیں صفیں گردش میں جب پیمانہ آتا ہے نہایت دل کو ہے مرغوب بوسہ خال مشکیں کا دہن تک اپنے کب تک دیکھیے یہ دانہ آتا ہے خوشی سے اپنی رسوائی گوارا ہو نہیں سکتی گریباں پھاڑتا ہے تنگ جب دیوانہ آتا ہے فراق یار میں دل پر نہیں معلوم کیا گزری جو اشک آنکھوں میں آتا...
  2. سیما علی

    آتش وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا

    وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا جو پہنی پھولوں کی بدھی تو درد شانہ ہوا شہید ناز و ادا کا ترے زمانہ ہوا اڑایا مہندی نے دل چور کا بہانہ ہوا شب اس کے افعئ گیسو کا جو فسانہ ہوا ہوا کچھ ایسی بندھی گل چراغ خانہ ہوا نہ زلف یار کا خاکہ بھی کر سکا مانی ہر ایک بال میں کیا کیا نہ شاخسانہ ہوا...
  3. فرخ منظور

    آتش نہ پوچھ حال مرا چوبِ خشک صحرا ہوں ۔ خواجہ حیدر علی آتش

    وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا جو پہنی پھولوں کی بَدّھی تو دردِ شانہ ہوا شہید و ناز و ادا کا ترے زمانہ ہوا اڑایا مہندی نے دل، چور کا بہانہ ہوا شب اس کے افعیِ گیسو کا جو فسانہ ہوا ہوا کچھ ایسی بندھی گُل چراغِ خانہ ہوا نہ زلفِ یار کا خاکہ بھی کر سکا مانی ہر ایک بال میں کیا کیا نہ شاخسانہ...
  4. طارق شاہ

    آتش خواجہ حیدرعلی آتش ::::: ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام ::::: Khuwaja Haidar Ali Aatish

    غزلِ خواجہ حیدرعلی آتش ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام کرتی ہے رُوح، مرحلۂ آب و گِل تمام حقا کے عِشق رکھتے ہیں تجھ سے حَسینِ دہر دَم بھرتے ہیں تِرا بُتِ چین و چگِل تمام ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک ، کیا کریں خالی ہیں تیل سے تِرے، چہرے کے تِل تمام دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے...
  5. کاشفی

    آتش شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا - حیدر علی آتش

    غزل (حیدر علی آتش) شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی سحر تک مہ و مشتری کا قراں تھا وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا نکالے تھے دو چاند اُس نے مقابل وہ شب صبح جنت کا جس پر گماں تھا...
  6. کاشفی

    آتش تاصبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات - آتش

    غزل (آتش) تاصبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات نوچکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات اللہ رے صبح عید کی اُس حور کی خوشی شانہ تھا اور زلفِ معنبر تمام رات کھولے بغل کہیں لحدِ تیرہ روزگار سویا نہیں کبھی میں لپٹ کر تمام رات کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سورہا پٹکا کیا میں سر...
  7. فرخ منظور

    آتش مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں ۔ آتش

    مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں، وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں نہ تجھے دماغِ نگاہ ہے، نہ کسی کو تابِ جمال ہے انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں، وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں کسے نیند آتی ہے اے صنم، ترے طاقِ ابرو کی یاد میں کبھی آشنائے تہِ بغل، سرِ مرغِ قبلہ نما...
  8. فرخ منظور

    آتش ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے ۔ آتش

    غزل ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے طریقِ عشق میں اے...
  9. کاشفی

    آتش آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست - حیدر علی آتش

    غزل (حیدر علی آتش) آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست رکھتے ہیں آپ پاؤں کہیں پڑتے ہیں کہیں رفتار کا تمہاری نہیں ہے چلن درست جو پہنے اُس کو جامہء عریانی ٹھیک ہو اندام پر ہر اک...
  10. کاشفی

    آتش طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا - حیدر علی آتش

    غزل (حیدر علی آتش) طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا نہ بوریا بھی میسّر ہوا بچھانے کو ہمیشہ خواب ہی دیکھا کیے چھپر کھٹ کا شبِ فراق میں اُس غیرتِ مسیح بغیر اُٹھا اُٹھا کے مجھے، دردِ دل نے دے پٹکا پری سے چہرہ کو اپنے وہ نازنیں...
  11. کاشفی

    آتش فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا - حیدر علی آتش

    غزل (حیدر علی آتش) فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا بناوٹ...
  12. کاشفی

    آتش حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما‌ں رہ گیا - حیدر علی آتش

    غزل (حیدر علی آتش) حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما‌ں رہ گیا دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا دوستی نبھتی نہیں ہرگز فرو مایہ کے ساتھ روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ ہر قدم پر ہے یقین ، یاں رہ گیا، واں رہ گیا کر کے آرایش، جو...
  13. فرخ منظور

    آتش ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا ۔ آتش

    غزل ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل...
  14. دل پاکستانی

    اردو شاعری کا مردِ قلندر، خواجہ حیدرعلی آتش

    معاشرے کی زوال پذیری کا عکس ادب میں نظر آنا فطری ہے اور دبستان لکھنؤ کے شعرا کے یہاں خارجی مضامین کی فراوانی اسی بات پر دال ہے۔ لیکن اس زمانے میں بھی خواجہ حیدر علی آتش دبستان لکھنؤ کے دوسرے شعرا سے مختلف نظر آتے ہیں ان کا انداز بھی الگ ہے۔ اس لیے کلام میں بھی انفرادیت ہے۔ان کا کلام ایسا منجھا...
  15. فرخ منظور

    آتش محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو- آتش

    محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو نقاب اس آفتاب حسن کا اندھیر رکھتا ہے رخ روشن چھپاکر سب کیا ہے روز روشن کو اڑاتے دولتِ دنیا کو ہیں ہم عشق بازی میں طلائی رنگ پر صدقے کیا کرتے ہیں کندن کو قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے ملانا خاک میں...
  16. محمد وارث

    آتش غزل - خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری - آتش

    خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری مری طرف...
  17. فرخ منظور

    آتش کوئی عشق میں مجُھ سے افزوں نہ نکلا - آتش

    کوئی عشق میں مجُھ سے افزوں نہ نکلا کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اِک قطرہء خوں نہ نکلا بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا کب افسانہء زلفِ شب گوں نہ نکلا پہنچتا اسے مصرعِ تازہ و...
  18. فرخ منظور

    آتش سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا - آتش

    سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے بخیہ طلب ہے سینہء صد چاک شانہ کیا؟ زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟ چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ...
  19. فرخ منظور

    آتش یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے - آتش

    یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے...
  20. سیفی

    آتش چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا - آتش

    [marq=right:ebe9514feb]ویسے آتش کے کلام کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔۔۔۔اگر آپ محسوس کریں تو[/marq:ebe9514feb] چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا یقیں ہو گیا شبنم کو، آفتا ب آیا ان انکھڑیوں میں اگر نشئہ شرکاب آیا سلام جھک کر کروں گا جو پھر حجاب آیا اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو جگایا نالوں سے...
Top