کاشفی

محفلین
غزل
(حیدر علی آتش)

شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا

مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سحر تک مہ و مشتری کا قراں تھا

وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا

نکالے تھے دو چاند اُس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پر گماں تھا

عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح دل شادماں تھا

مشاہد جمال پری کی تھیں آنکھیں
مکان وصال اک طلسمی مکاں تھا

حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی
کُھلا تھا وہ پردہ کہ جو درمیاں تھا

کیا تھا اُسے بوسہ بازی نے پیدا
کمر کی طرح سے جو غائبا وہاں تھا

حقیقت دکھاتا تھا عشق مجازی
نہاں جس کو سمجھے ہوئے تھے عیاں تھا

بیاں خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ کیا خوبصورت غزل ہے اور مقطع تو صدیوں سے ضرب المثل بن چکا ہے۔

بہت شکریہ کاشفی صاحب شیئر کرنے کیلیے۔
 
Top