کاشفی

محفلین
مذہب کی خوبیاں اسے قائل نہ کرسکیں
بس ایک ہی اصول پر قربان ہو گیا
جوں ہی سنا کہ چار بھی جائز ہیں بیویاں
فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا

(شاعر: مجھے معلوم نہیں)
 

کاشفی

محفلین
قصد تو جائز ہے لیکن اپنا قابو دیکھ کر
ہاتھ اٹھانا چاہیئے انساں کو بازو دیکھ کر

اکبر الہ آبادی
 

کاشفی

محفلین
مجھ میں بسا ہوا بھی ہے وہ سر سے پیر تک
اور کہہ رہا ہے یہ بھی کہ میرا نہیں ہے وہ

ڈاکٹر جاوید جمیل
 

کاشفی

محفلین
کر دونگا موم باتوں میں سوز و گداز سے
جذبات کی تپش سے مبرا نہیں ہے وہ

واضح یہ کر چکا ہے یقیں دل کے وہم پر
میرا ہے صرف اور کسی کا نہیں ہے وہ

ڈاکٹر جاوید جمیل
 

کاشفی

محفلین
ہوگا غلط بیان میں مجبوریوں کا ہاتھ
حق بات ورنہ یہ ہے کہ جھوٹا نہیں ہے وہ

ڈاکٹر جاوید جمیل
 

کاشفی

محفلین
ٹھہرا وہ پھول، بوسے لبوں کے ملے اسے
پتوں کی طرح پیروں میں آیا نہیں ہے وہ

مرنے کے بعد آیا ہے کرنے مرا علاج
مانا کہ چارہ گر ہے. مسیحا نہیں ہے وہ

جاوید رات دن ہے ترا انتظار اسے
کہنے کو تیرے پیار کا بھوکا نہیں ہے وہ

ڈاکٹر جاوید جمیل
 

کاشفی

محفلین
رتوں پہ بس نہیں چلتا وگرنہ یہ جہاں والے
ہوائیں بیچ دیتے رنگ و بو نیلام کر دیتے

(شاعر: نا معلوم، کراچی پاکستان:))
 

کاشفی

محفلین
غیروں کے کہاں بس میں تھی اس درجہ کی سازش
شامل کہیں دیکھو مرے احباب بھی ہونگے

ڈاکٹر جاوید جمیل
 
Top