نصیر الدین نصیر

  1. ا

    نصیر الدین نصیر طاری ہے اہلِ جبر پہ ہیبت حُسینؑ کی

    طاری ہے اہلِ جبر پہ ہیبت حُسینؑ کی اللہ رے یہ شانِ جلالت حُسینؑ کی کٹوا کے سر گواہیِ توحید دے گئے بے مثل ہے جہاں میں شہادت حُسینؑ کی سو نگھی تھی لے کے ہاتھ میں دشتِ بلا کی خاک ناناؐ کے سامنے تھی مصیبت حُسینؑ کی کرتے قبول بیعتِ فاسق وہ کس طرح دستِ محمدّی پہ تھی بیعت حُسینؑ کی...
  2. ا

    اے جذبہ دل گر میں چاہوں ؛ نیرہ نور ، مرزا بیدل ، قرۃ العین طاہرہ

  3. ا

    فارسی شاعری ہمہ دان و ہمہ جا

    بدہد زمانہ شہادتے کہ خدائے ارض و سما توئی سخن از عطائے تو می رود کہ بہ درد و غم ہمہ را توئی ہمہ راست لطف تو دادرس ، چمن و طراوت و خار و خس لبِ خود کشودہ بہ نَفس کہ خدا توئی ، بخدا توئی بہ کمالِ ناز برآمدی ، بہ صد اہتزار در آمدی بہ شمیم نکہتِ گُل توئی ، بہ خرام، موجِ صبا توئی من و جرم کوشیِ پے...
  4. ا

    میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی

    سید نصیر الدین نصیر کی غزل ، راحیل فاروق کی آواز میں
  5. م

    آئے تھے اگر تو دِل لُبھاتے جاتے

    آئے تھے اگر تو دِل لُبھاتے جاتے آنا تھا نہ یُوں تو پھر نہ آتے جاتے دُہراؤں تو آتا ہے کلیجہ مُنھ کو کُچھ یاد ہے، کیا کہا تھا جاتے جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیر سیّد نصیر الدین نصیرؔ
  6. ا

    عشق کے قربان لایا تیری چوکھٹ پر مجھے

    عشق کے قربان لایا تیری چوکھٹ پر مجھے ضعف کے صدقے بٹھایا تیرے در کے سامنے حشر کے دِن بھی ہو شرحِ غم تمہارے سامنے سب خُدا کے سامنے ہوں ہم تمہارے سامنے آرزو یہ ہے کہ نِکلے دَم تُمہارے سامنے تُم ہمارے سامنے ہو ہم تمہارے سامنے داغ دہلوی
  7. ا

    انسان کے مراتب استعداد

    انسان کے مراتب استعداد بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی استعداد درجہ ء حیوانیت سے متجاوز نہیں ہو پاتی اور وہ صرف حیات کی اساسی ضروریات تک ہی محدود رہتے ہیں ، یہ انسانی استعداد کا سب سے کم مرتبہ ہے۔ ان سے اونچا طبقہ ان اصحاب کا ہے جو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی استعداد کے رجحانات...
  8. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر گلزار مدینہ صلِّ علیٰ رحمت کی گھٹا سبحان اللّٰہ

    گلزارِ مدینہ صلِّ علیٰ،رحمت کی گھٹا سبحان اللّٰٰہ پُر نُور فضا ماشااللّٰہ،پُر کیف ہَوا سبحان اللّٰہ اُس زلفِ معنبر کو چھو کر مہکاتی ہُوئ ،اتراتی ہُوئ لائ ھے پیامِ تازہ کوئ،آئی ھے صبا سبحان اللّٰہ والشمس جمالِ ہوش ربا زلفیں وَالیلِ اِذا یَغشٰی القابِ سیادت قرآں میں،یٰسیں ،طٰحہٰ سبحان اللّٰہ...
  9. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر دل حزیں کو تری یاد سے بچا نہ سکے

    دلِ حزیں کو تری یاد سے بچا نہ سکے ہزار بار بُھلایا ، مگر بُھلا نہ سکے بُجھے بُجھے سے رہے دل میں ، جگمگا نہ سکے ہمارے داغہاے تمنا ، فروغ پا نہ سکے زبانِ اشک سے حالِ دل اُن کو کہنا تھا ہم اُن کے سامنے آنسو مگر بہا نہ سکے نکل سکی نہ ملاقات کی کوئی صورت ہمیں بلا نہ سکے اور خود...
  10. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر وہ کیا کہہ گئے مجھ کو کیا کہتے کہتے

    وہ کیا کہہ گئے مجھ کو کیا کہتے کہتے بھلا کہہ گئے وہ بُرا کہتے کہتے کہیں یہ نہ ہو آنکھ بھر آئے قاصد مرے داستانِ وفا کہتے کہتے اُٹھا تھا میں کچھ اُن سے کہنے کو ، لیکن زباں رُک گئی بارہا کہتے کہتے وہ سُنتے مگر اے ہجومِ تمنا! ہمیِں کھو گئے مُدّعا کہتے کہتے زمانے کی آغوش میں جا پڑے ہم زمانے...
  11. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر ( کبھی پیکاں کبھی خنجر ، نظر یوں بھی ہے اور یوں بھی )

    کبھی پیکاں کبھی خنجر ، نظر یوں بھی ہے اور یوں بھی وہ قاتل در پئے قلب و جگر یوں بھی ہے اور یوں بھی گُلوں میں رنگ بن کر ، چاند تاروں میں چمک بن کر ہمارے سامنے وہ جلوہ گر یوں بھی ہے اور یوں بھی نگاہیں پھیر لے یا مسکرا کر دیکھ اے ظالم ! ستم ہو یا کرم ، تُو معتبر یوں بھی ہے اور یوں بھی کوئی...
  12. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر عجب ہے شب غم کے ماروں کی دنیا

    عجب ہے شب غم کے ماروں کی دنیا لرزتی ہے جن سے ستاروں کی دنیا یہ بزم بتاں ہے نظاروں کی دنیا اداؤں کی بستی، اشاروں کی دنیا صبا نے کئے چاک، پھولوں کے دامن جو دیکھی ترے دل فگاروں کی دنیا ہمارے لئے ہے، تمھارے لئے ہے خزاں کا زمانہ ، بہاروں کی دنیا انھیں کی پروا، انھیں کس سے مطلب الگ سب سے ہے بادہ...
  13. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر محبت ناز ہے یہ ناز کب ہر دل سے اٹھتا ہے ۔

    محبت ناز ہے یہ ناز کب ہر دل سے اٹھتا ہے یہ وہ سنگِ گراں ہے جو بڑی مشکل سے اٹھتا ہے لگی میں عشق کی ، شعلہ کوئی مشکل سے اٹھتا ہے جلن رہتی ہے آنکھوں میں ، دھواں سا دل میں اٹھتا ہے تری نظروں سے گِر کر جب کوئی محفل سے اٹھتا ہے بڑی دِقّت ، بڑی زحمت ، بڑی مشکل سے اٹھتا ہے جو آ کر بیٹھتا ہے ، بیٹھ...
  14. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر بڑھ چلی دیوانگی ، اپنے سے ہیں بیگانہ ہم اُس نے کیا پھیری نگاہیں، بن گئے افسانہ ہم

    بڑھ چلی دیوانگی ، اپنے سے ہیں بیگانہ ہم اس نے کیا پھیری نگاہیں ، بن گئے افسانہ ہم یہ تو ہم جس کے ہیں وہ جانے کہ کیا ہیں کیا نہ ہم کچھ اگر ہیں تو بس خاکِ درِ جانانہ ہم ٹھان لی ہے اب کے رندوں نے یہ اپنے دل کی بات بزمِ ساقی میں پئیں گے آج بے پیمانہ ہم گُل کِھلائے وحشتِ دل نے تو یہ عُقدہ کُھلا...
  15. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر جہاں دیدہ و دل اب لٹا معلوم ہوتا ہے

    جہانِ دیدہ و دل اب لُٹا معلوم ہوتا ہے نظر کی اوٹ میں کوئی چھُپا معلوم ہوتا ہے طبیبوں کو مرا دُکھ لَا دوا معلوم ہوتا ہے مگر اب تم بتاؤ تم کو کیا معلوم ہوتا ہے جگر میں درد پہلے سے سِوا معلوم ہوتا یے دہانِ زخم اب کھُلنے لگا "معلوم ہوتا ہے" چھُپا بیٹھا ہے آخر کون میرے سازِ ہستی کیں بہر پردہ کوئی...
  16. فرحان محمد خان

    نصیر الدین نصیر ہم سا بھی ہوگا جہاں میں کوئی ناداں جاناں - پیر سید نصیر الدین نصیرؔ گیلانی

    ہم سا بھی ہوگا جہاں میں کوئی ناداں جاناں بے رُخی کو بھی جو سمجھے ترا احساں جاناں جب بھی کرتی ہے مرے دل کو پریشاں دُنیا یاد آتی ہے تری زُلفِ پریشاں جاناں میں تری پہلی نظر کو نہیں بھولا اب تک آج بھی دل میں ہے پیوست وہ پیکاں جاناں ہمسُخَن ہو کبھی آئنیے سے باہر آ کر اے مری روح ! مرے عکسِ...
  17. ا

    جِِس دِن سے پائے نسبت رکھا تری گلی میں

    جِِس دِن سے پائے نسبت رکھا تری گلی میں دیکھا پھر اہلِ دِل نے کیا کیا تری گلی میں جب بھی کِیا ہے مَیں نے سجدہ تری گلی میں خود کھنچ کے آگیا ہے کعبہ تری گلی میں آتا نہیں ہے تب تک دِل کو قرار میرے لگتا نہیں ہے جب تک پھیرا تری گلی میں اوروں کوہوں مبارک رنگینیاں جہاں کی ہم نے تو جو بھی دیکھا، دیکھا...
  18. ا

    آں روز کہ روحِ آدم آمد بہ بدن

  19. فرحان محمد خان

    نصیر الدین نصیر ہر طرف سے جھانکتا ہے روئے جانانہ مجھے - پیر سید نصیر الدین نصیؔر گیلانی

    ہر طرف سے جھانکتا ہے روئے جانانہ مجھے محفلِ ہستی ہے گویا آئینہ خانہ مجھے اِک قیامت ڈھائے گا دنیا سے اٹھ جانا مرا یاد کر کے روئیں گے یارانِ میخانہ مجھے دل ملاتے بھی نہیں دامن چھڑاتے بھی نہیں تم نے آخر کیوں بنا رکھا ہے دیوانہ مجھے یا کمالِ قُرب ہو یا انتہائے بُعد ہو یا نبھانا ساتھ یا...
  20. فرحان محمد خان

    نصیر الدین نصیر دل میں شُعلے سے اُٹھے آہِ رسا سے پہلے -پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی

    دل میں شُعلے سے اُٹھے آہِ رسا سے پہلے آتشِ عشق بھڑک اُٹھی ہوا سے پہلے غنچہ موج ہے، گردابِ بلا سے پہلے مسکرا دیتے ہیں وہ مجھ پہ جفا سے پہلے عشق، اور اس بتِ کافر کا، الہی توبہ نام بھی اس کا اگر لو تو خدا سے پہلے رازِ ہستی کو سمجھنا نہیں کارِ آساں نہ کُھلا ہے نہ کُھلے گا یہ قضا سے پہلے...
Top