نصیر الدین نصیر جہاں دیدہ و دل اب لٹا معلوم ہوتا ہے

جہانِ دیدہ و دل اب لُٹا معلوم ہوتا ہے
نظر کی اوٹ میں کوئی چھُپا معلوم ہوتا ہے

طبیبوں کو مرا دُکھ لَا دوا معلوم ہوتا ہے
مگر اب تم بتاؤ تم کو کیا معلوم ہوتا ہے

جگر میں درد پہلے سے سِوا معلوم ہوتا یے
دہانِ زخم اب کھُلنے لگا "معلوم ہوتا ہے"

چھُپا بیٹھا ہے آخر کون میرے سازِ ہستی کیں
بہر پردہ کوئی صرفِ نوا معلوم ہوتا ہے

نمودِ زندگی کے روپ میں رنگِ قضا بِکھرا
ترا جادو بڑا چلتا ہوا معلوم ہوتا ہے

جدھر نظریں اُٹھاؤ ایک عالم ہے تخیُر کا
جسے دیکھو وہی اک نقش سا معلوم ہوتا ہے

ترا جو لفظ بھی منہ سے نکل جائے مرے حق میں
مجھے وہ اپنی قسمت کا لکھا معلوم ہوتا ہے

پھر آ پہنچا ہُوں اُس در پر جہاں لوٹا گیا تھا میں
مرا رہزن ہی مجھ کو رہنما معلوم ہوتا ہے

اُسی کو دیکھتے ہی دم پہ بن جاتی ہے محفل میں
وہی جو زندگی کا آسرا معلوم یوتا ہے

تڑپنا، لوٹنا، رونا، مچلنا اُن کے قدموں پر
یہ عالم سارے عالم سے جُدا معلوم ہوتا ہے

اگر دیکھو تو رشکِ صد گُلستاں ہے جمال اُن کا
جو سوچو تو جنوں کا سلسلہ معلوم ہوتا ہے

نصیر اُن کی پرستش آپ ہی تنہا نہیں کرتے
زمانہ اُن کی صورت پر فدا معلوم ہوتا ہے

 
Top