نصیر الدین نصیر بڑھ چلی دیوانگی ، اپنے سے ہیں بیگانہ ہم اُس نے کیا پھیری نگاہیں، بن گئے افسانہ ہم


بڑھ چلی دیوانگی ، اپنے سے ہیں بیگانہ ہم
اس نے کیا پھیری نگاہیں ، بن گئے افسانہ ہم

یہ تو ہم جس کے ہیں وہ جانے کہ کیا ہیں کیا نہ ہم
کچھ اگر ہیں تو بس خاکِ درِ جانانہ ہم

ٹھان لی ہے اب کے رندوں نے یہ اپنے دل کی بات
بزمِ ساقی میں پئیں گے آج بے پیمانہ ہم

گُل کِھلائے وحشتِ دل نے تو یہ عُقدہ کُھلا
وہ گلستاں تھا جسے سمجھا کیے ویرانہ ہم

بُھول جاتے ہیں جو اپنے عہد، اپنے قول کو
ایسے لوگوں سے نہیں رکھتے کبھی یارانہ ہم

جن سے بس صاحب سلامت تھی، اُنھیں اپنا لیا
غیر سب اپنے ہُوئے بس ایک ہیں بیگانہ ہم

اُن کی رسوائی کا ڈر اب پاؤں کی زنجیر ہے
جا نکلتے تھے کبھی ان کی طرف روزانہ ہم

ٹوٹتا ہے نشّہ ،اے پیر مغاں ! اک جام دے
پھر نہ یہ کہنا کہ تَلپَٹ کر گئے میخانہ ہم

مدّعا یہ تھا سنائیں گئے ہم اپنی داستاں
بےخودی میں کہہ گئے تجھ سے ترا افسانہ ہم

ہے ازل سے تعلّق اُن کے جلوؤں سے نصیر
لاکھ دُوری ہو، مگر وہ شمع ہیں، پروانہ ہم

کل نصیر اِک جام کا مِلنا ہمیں دشوار تھا
آج آنکھوں میں لئیے بیٹھے ہیں اِک میخانہ ہم​
 
آخری تدوین:
Top